بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم پر دین کا دعویٰ کرنا


سوال

میرے بھائی کا  انتقال ہوگیا ہے، ان کی ایک بلڈنگ تھی اس کی تعمیر کے لیے انہوں نے کچھ رقم بکنگ کی مد میں لی تھی، اب ان کا انتقال ہوگیا ہے،  تو دو لوگ دعوی دار ہیں کہ ہم نے ان کو رقم دی تھی، ایک دعویٰ کررہا ہے ایک کروڑ نوے لاکھ کا ، اور 97 لاکھ کا، اب ہم نے ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کی  اور ثبوت مانگا کہ رسیدیں دکھائیں، ایک نے ہمیں 80 لاکھ  کے اسٹامپ پیپر  دکھائے ، اس کو ہم نے مان لیا، اوردوسرے نے 73 لاکھ کے اسٹامپ پیپر دکھائے، ہم نے مان لیا،  اب 80 لاکھ والا ایک کروڑ نوّے لاکھ کی ڈیمانڈ کررہا ہے، اور 73 لاکھ والا 97 لاکھ کی ڈیمانڈ کررہا ہے، ثبوت دونوں پیش نہیں کررہے ہیں، شرعی حکم کیا ہے، کیا ہم ان سے قسم لے لیں قرآن پر ہاتھ رکھ کر، راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے بھائی کے انتقال کے بعد ایک شخص نے  مرحوم کو ایک کروڑ نوے لاکھ دینے اور دوسرے شخص نے  97 لاکھ روپے دینے کا  اور ان سے زندگی میں وصول نہ کرنے کا  دعویٰ کیا  ہے تو اس رقم میں سے  اسٹامپ پیپر وغیرہ دیکھ کر مرحوم کے ورثاء نے جس قدر رقم مرحوم کے ذمہ ہونے کا اقرار کرلیا ہے، اگر مرحوم کے ترکہ میں مال موجود ہو تو  وہ رقم ان دعویٰ کرنے والوں کو دینا لازم ہوگا، اس کے علاوہ مزید رقم  کو ثابت کرنے کے لیے دعویٰ کرنے والوں کو   شرعی گواہان سے   اپنے دعویٰ کو ثابت کرنا ضروری ہوگا، اگر وہ شرعی گواہان سے دعویٰ کو ثابت کرلیں تو ان کی بات کا اعتبار ہوگا، لیکن  ان سے یہ قسم  بھی لی جائے گی کہ  انہوں نے مرحوم کی زندگی میں وہ رقم وصول نہیں کی  تھی، اور اگر وہ شرعی گواہان سے اپنے اس دعویٰ کو ثابت نہ کرسکیں تو مرحوم کے ورثاء کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، اور مرحوم کے ورثاء ”علم“ پر قسم اٹھائیں گے کہ :

”اللہ کی قسم ہمیں اس کا علم نہیں  ہے کہ  ہمارے مورِث نے ان سے یہ رقم لی تھی “،

ورثاء قسم کھالیں تو ان کی بات معتبر ہوگی، اور دعویٰ کرنے والوں کو مزید رقم ترکہ سے دینا لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا ادعى) بكر (سبق الشراء) له على شراء زيد ولا بينة (يحلف خصمه) وهو بكر (على العلم) أي أنه لا يعلم أنه اشتراه قبله لما مر.(كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.

(قوله: كونه ميراثا) أي كون المورث مات وتركه (قوله: أو برهن الخصم) وهو المدعى عليه. (قوله: فيحلف) أي الوارث. (قوله: على العلم) أي وإلا بأن لم يعلم القاضي حقيقة الحال ولا إقرار المدعي بذلك ولا أقام المدعى عليه بينة يحلف على البتات بالله ما عليك تسليم هذه إلى المدعي عمادية عزمي."

(5 / 553 ،کتاب الدعویٰ، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي دعوى الدين على الميت إذا ذكر أنه مات قبل أداء شيء من هذا الدين وخلف من التركة في يد هؤلاء الورثة ما يفي بقضاء هذا الدين وزيادة ولم يذكر أعيان الورثة تسمع فيما عليه الفتوى لكن لا يحكم بأداء الدين على الوارث ما لم تصل إليه التركة فإن أنكر وصول التركة إليه وأراد إثباته لا يتمكن من ذلك إلا بذكر أعيان التركة على وجه يحصل به الإعلام كذا في الوجيز للكردري في نوع من الفصل الخامس عشر من كتاب الدعوى."

 (4 /4، کتاب الدعویٰ، ط: رشیدیة)

وفيه ايضاّ :

"لا يحلف مع وجود البرهان إلا في مسائل: الأولى يحلف مدعي الدين على الميت إذا برهن ولا خصوصية لدعوى الدين بل في كل موضع يدعي حقا في التركة وأثبته بالبينة فإنه يحلف من غير طلب خصم أنه ما استوفى حقه وهو مثل حقوق الله - تعالى - يحلف من غير دعوى."

(4/14،  کتاب الدعویٰ، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"القاضي يحلف غريم الميت ولو أقر به المريض. 

مطلب يحلف القاضي غريم الميت.

(قوله: القاضي يحلف غريم الميت) لم يبين أن هذا التحليف واجب أم لا، وتوقف فيه المقدسي، لكن قال في الخلاصة عن أدب القاضي للخصاف: وأجمعوا على أن من ادعى دينا على الميت يحلف من غير طلب الوصي والوارث بالله ما استوفيت دينك من المديون، ولا من أحد أداه إليك عنه ولا قبضه قابض ولا أبرأته ولا شيئا منه ولا أحلت بذلك ولا بشيء منه على أحد ولا عندك به ولا بشيء منه رهن اهـ. وعلله الصدر الشهيد بأن اليمين ليست للوارث ها هنا، وإنما هي للتركة؛ لأنه قد يكون له غريم آخر أو موصى له فالحق في هذا في تركة الميت فعلى القاضي الاحتياط في ذلك وقال قبله. ولا يدفع له شيئا حتى يستحلفه اهـ فحيث أجمعوا على تحليفه وذكروا أنه لا يدفع إليه المال، حتى يستحلف، ولو لم يفعل ذلك لم يستوف الدعوى شرطها فلا ينفذ حكمه بالدفع والقبض والقاضي مأمور، بالحكم بأصح أقوال الإمام، فإذا حكم بغيره لم يصح فكيف وقد أجمعوا على التحليف، وتمامه في الحامدية قال في البحر من الدعوى: ولا خصوصية للدين بل في كل موضع يدعي حقا في التركة، وأثبته بالبينة وعزاه إلى الولوالجية ثم قال: ولم أر حكم من ادعى أنه دفع للميت دينه وبرهن هل يحلف وينبغي أن يحلف احتياطا اهـ قال محشيه الرملي: قد يقال إنما يحلف في مسألة مدعي الدين على الميت احتياطا لاحتمال أنهم شهدوا باستصحاب الحال وقد استوفاه في باطن الأمر، وأما في مسألة دفع الدين فقد شهدوا على حقيقة الدفع فانتفى الاحتمال المذكور اهـ. وهذا وجيه كما لا يخفى."

(5 / 425، کتاب القضاء، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں