بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی نمازوں اور روزوں کے فدیہ کا حکم


سوال

کیا مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ نکالا جاتا ہے یا نہیں؟ اگر نکالا جاتا ہے تو کس طرح نکالیں؟ اور کتنے عرصے کا نکالا جائے؟ اور کس کو دیا جائے؟

جواب

1- بصورتِ  مسئولہ  اگر مرحوم نے اپنی قضانمازوں اور روزوں کے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی، تو اس صورت میں اس کے ترکے کے ایک  تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائےگی، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثہ کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ بطورِ تبرع مرحوم کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔ 

اور اگر مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یاآپ اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ  ادا کردیں تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔

2: ایک روزے  کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور ایک نماز کا فدیہ  بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے،  اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

3: اگر مرحوم کے ذمہ نمازوں اور روزوں کی تعداد معلوم ہے تو ورثاء اسی کے بقدر فدیہ  دے دیں، اور اگر تعدادمعلوم نہیں ہے تواندازہ لگاکر اداکرسکتے ہیں۔

4: فدیہ اس شخص کودیاجاسکتا ہے جس کو زکوۃ دیناجائز ہے،  یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ، لہذا اگر ورثاء مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ اداکرنا چاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔ صاحبِ نصاب نہ ہو سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اس کی ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) 

(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.

ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.

واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه. والمتبادر من التقييد بالولي أنه لا يصح من مال الأجنبي. ونظيره ما قالوه فيما إذا أوصى بحجة الفرض فتبرع الوارث بالحج لا يجوز، وإن لم يوص فتبرع الوارث إما بالحج بنفسه أو بالإحجاج عنه رجلا يجزيه. وظاهره أنه لو تبرع غير الوارث لايجزيه، نعم وقع في شرح نور الإيضاح للشرنبلالي التعبير بالوصي أو الأجنبي فتأمل، وتمام ذلك في آخر رسالتنا المسماة شفاء العليل في بطلان الوصية بالختمات والتهاليل.

(باب قضاء الفوائت، ج:1، ص:2، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144203200181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں