والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا نیشنل سیونگ سنٹر میں موجود اکاؤنٹ (جس میں 30 لاکھ روپے تھے) ختم کروانے گیا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ والد مرحوم نے لکھوایا ہوا تھا کہ ان پیسوں میں سے 10 لاکھ والدہ کے ہیں، 10 لاکھ میرے اور باقی 10 بھائی کے؛ لہذا بینک نے اسی طرح یہ پیسے تقسیم کر کے ہم تینوں کو دے دیے، ورثاء میں میری 3 بہنیں بھی ہیں، کیا ہم تینوں کے لیے ان پیسوں کو استعمال کرنا درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رقم جو سائل کے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں سائل کی والدہ، بھائی اور اس کے نام کی تھی اور ان افراد کو اس پر قبضہ نہیں دیا تھا تو شرعًا یہ رقم ان کی نہیں ہوئی، بلکہ ان کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔
لہذا مرحوم کے کل ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم پر کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کو 8 حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بیوہ کو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا، یعنی تیس لاکھ روپے میں سے تین لاکھ پچھتر ہزار روپے مرحوم کی بیوہ کو، ساڑھے سات لاکھ روپے ہر ایک بیٹے کو اور تین لاکھ پچھتر ہزار روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
واضح رہے کہ نیشنل سیونگ سینٹر میں جمع کردہ اصل رقم لے کر ورثا میں تقسیم کی جائے گی، زائد رقم سود ہے، ورثا میں تقسیم نہیں ہوگی، لہٰذا اگر تیس لاکھ روپے مکمل والد صاحب کی ذاتی ملکیت تھے تو مذکورہ تقسیم معتبر ہوگی، اگر اس رقم میں کچھ سودی رقم بھی شامل تھی تو وہ ترکے میں تقسیم نہیں ہوگی، بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر ورثاء میں اسے تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200133
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن