بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کے پلاٹ کے کاغذت مرحوم کی بیوہ کو دیے جائیں یا مرحوم کے مرحوم بیٹے کی بیوہ کو؟


سوال

میرے ماموں نے تین سال پہلے پلاٹ لیا ہے،  اب ماموں کا انتقال ہوگیا، اب وہ شخص جس کا نام ۔۔۔ ہے،  وہ پلاٹ کے کاغذات نہیں دے رہا، جب کہ میرے ماموں کی گھر والی زندہ ہے، اور ہمارے پاس ایگریمنٹ بھی پڑے ہیں، ماموں کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں، وہ 2014 میں وفات کرگیا ، اور اس کے والد کے انتقال کو ابھی آٹھ مہینہ ہوئے، اب  وہ شخص کہہ رہا ہے مجھے فتوی دو کہ کاغذات ماموں کی بیوی کو دوں یا اس کے بیٹے کی بیوہ کو دوں ، لہذا یہ راہ نمائی کردیں کہ حق کس کا ہے ماموں کی بیوی کا یا  ماموں کے بیٹے کی بیوی کا ؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ماموں کے انتقال کے بعد ماموں کا مذکورہ ملکیتی پلاٹ ان  کا ترکہ بن گیا ہے، جس میں ان کے تمام شرعی ورثاء کا اپنے اپنے حصوں کے تناسب سے حصہ ہے اور وہ سب اس میں شریک ہیں۔

ماموں کے جس بیٹے کا  انتقال اپنے والد کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، اس کا والد کے ترکہ میں کوئی حق وحصہ نہیں ہے،جب اس کا حصہ ہی نہیں ہے تو  اس کے ورثاء میں بھی وہ  منتقل  نہیں ہوگا، البتہ چوں کہ مرحوم کی دوسری کوئی  نرینہ اولاد موجود نہیں ہیں اس لیے بیوہ  اور بیٹیوں کو حصہ ملنے کے بعد  اگر مرحوم بیٹے کی اولاد  (مرحوم  ماموں کے پوتے /پوتیاں) موجود  ہیں تو ان کو حصہ ملے گا، لیکن بہو کا  حصہ نہیں ہوگا۔

لہذا مرحوم  ماموں کے مرحوم  بیٹے کی بیوہ  کا اس پلاٹ میں  کوئی حق و حصہ نہیں ہے،  اس لیے اس کو پلاٹ کے کاغذات دینا یا اس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ شرعی ورثاء کو یہ کاغذات حوالہ کردیے جائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں