بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہن بھائیوں میں میراث تقسیم کرنے کا حکم


سوال

میرے والد کا انتقال (1996) میں ہوا، اور ان کے میراث میں سے صرف والدہ کو حصہ ملا ہے، ہم بہن بھائیوں کو حصہ نہیں ملا، اور والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، ان کا ترکہ بھی تقسیم ہوچکا ہے، اب والد کا ترکہ تقسیم ہورہا ہے جس میں پوچھنا یہ ہے کہ ہم چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، ان میں سے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا ہے، اور ان کے ورثاء میں صرف بیوہ اور ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، کوئی اولاد نہیں ہے، والدین پہلے سے انتقال کرچکے ہیں، سوال یہ ہے کہ مذکورہ بھائی کے ترکہ میں سے بیوہ کو حصہ ملنے کے بعد مذکورہ بھائی کا بقیہ ترکہ ہم بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگی یا بھائی کو بہن سے زیادہ یعنی ڈبل ملےگا، براہِ کرم اس بات کی وضاحت کریں، مہربانی ہوگی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے انتقال کے بعد جب ان کے ورثاء میں صرف بیوہ ہیں، اولاد نہیں ہے تو بقیہ ترکہ بہن بھائیوں کو عصبہ ہونے کی بناء پر بھائیوں کو بہن سے دوگنا حصہ ملےگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (والأخوات لأب وأم كبنات الصلب عند عدمهن) أي عند عدم البنات وبنات الابن حتى يكون للواحدة النصف وللثنتين الثلثان ومع الإخوة لأب وأم {للذكر مثل حظ الأنثيين} لقوله تعالى {قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثها إن لم يكن لها ولد فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين} ".

(کتاب الفرائض،ميراث أصحاب الفروض ، ج:8، ص:565، ط:دارالکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں