بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’مرحا‘‘ ،’’ زمل ‘‘،’’زائرۃ‘‘،’’معیشۃ‘‘ ،’’اسراء ‘‘اور’’ العزۃ ‘‘ناموں کا حکم


سوال

مجھے اپنی ہونی والی بیٹی کے لیے چند نام جو ذہن میں ہیں ان کی اسلامی حیثیت اور مطلب کے بارے میں آپ کی مدد اور تجویز درکار ہے :

۱۔مرحا/ مرھا 

۲۔زمل 

۳۔زائرا

۴۔معیشۃ 

۵۔اسرا /عصرا 

۶۔العزۃ / الزا 

آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا ۔

جواب

مذکورہ  ناموں کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ :

۱۔’’مِرحا‘‘ (میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ) عربی قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ہے، ’’مرحه‘‘ (میم کے کسرہ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ)   کے ایک معنی اترانے کے ہیں اور دوسرا معنی’’ خشک انگور کا ڈھیر ‘‘ کے آتے ہیں،   یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

  "مَرَ حا" (میم اور را پر زبر  اور آخر میں الف کے ساتھ )  کا مطلب ہے" تکبر کرنا"۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

 "مَرْحیٰ" (میم پر زبر اور را ساکن)  عربی میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

1- ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘ کی جمع بھی ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے، یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

2- ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر(الف مقصورہ ) کے ساتھ)  تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح   خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا؛ اس لیے نہ رکھنا بہتر ہے۔

وفي تاج العروس :

"مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ. (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ،۔۔۔۔۔۔۔ (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)".

(7/ 113الناشر دار الهداية)

وفيه أيضا:

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذا أَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى. 

(6/ 311الناشر دار الهداية)

وفي المعجم الوسيط :

(المرحة) الأنبار من الزَّبِيب وَنَحْوه.

(2/ 861الناشر: دار الدعوة)

مصباح اللغات میں ہے :

المرحۃ :مرح کا اسم نوع ۔خشک انگور کا ڈھیر ۔(صفحہ:۸۱۴)

۲۔’’زمل‘‘(زا کے نیچے زیر اور میم ساکن)کا معنی ہے: (۱) بوجھ (۲) پیچھے سوار ہونے والا،ردیف(۳) کم زور(٤) سست و کاہل۔

  اور اگر زمل(زا پر پیش اور میم پر زبر) ہو تو اس کا معنی ہے :بزدل و کمینہ۔

زمل ( ز کے نیچے زیر اور م پر زبر) اس وزن پر لغت میں کوئی لفظ نہیں مل سکا، بہر حال  یہ نام رکھنا درست نہیں۔

وفي تاج العروس من جواهر القاموس:

 والزميل ، كأمير : الرديف على البعير الذي يحمل الطعام والمتاع ، وقيل : هو الرديف على الدابة ، يتكلم به العرب ، كالزمل ، بالكسر ...والزمل ، كسكر ، وصرد ، وعدل ، وزبير ، وقبيط ، ورمان ، وكتف ، وقسيب ، بكسر فسكون ففتح فتشديد ، وجهينة ، وقبيطة ، ورمانة ، فهي لغات إحدى عشرة ، كل ذلك بمعنى الجبان الضعيف الرذل ، الذي يتزمل في بيته ، لا ينهض للغزو ، ويكسل عن مساماة الأمور الجسام ... والزمل ، بالكسر : الحمل ، )  وفي حديث أبي الدرداء : إن فقدتموني لتفقدن زملا عظيما ، يريد حملا عظيما من العلم .

 (29/ 138 /141الناشر دار الهداية)

۳۔زائرۃ (آخر میں گول تاء کے ساتھ ) ،یہ زائر کی مؤنث ہے ،معنی ہے:زیارت کرنے والی ،مہمان ،یہ نام رکھ سکتے ہیں ۔

وفي المصباح المنير في غريب الشرح الكبير:

(زاره) (زيارة) و (زورا) قصده فهو (زائر) و (زور) وقوم (زور) و (زوار) مثل سافر وسفر وسفار ونسوة (زور) أيضا و (زور) و (زائرات) و (المزار) يكون مصدرا .

(1/ 260الناشر : المكتبة العلمية - بيروت)

۴۔’’معیشۃ ‘‘، اس کے معنی ہیں :روزینہ ،(کھانا پینا آمدنی وغیرہ ) اسباب زندگی ،ذریعہ گزر بسر ۔(القاموس الوحید ص: ۱۱۴۷ )،یہ نام رکھنا درست ہے ۔

وفي تاج العروس من جواهر القاموس:

والمعيشة : التي تعيش بها من المطعم والمشرب ، قاله الليث . و*!العيش ، *!والمعيشة : ما تكون به الحياة . و*!المعاش *!والمعيش والمعيشة : ما *!يعاش به ، أو فيه ، فالنهار *!معاش ، والأرض معاش للخلق يلتمسون فيها معايشهم .

(17/ 283الناشر دار الهداية)

۵۔اسراء ،اس کے معنی ہیں رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔

وفي لسان العرب: 
وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا۔

 (14 / 377)

۶۔العزۃ ۔مذکورہ نام کا درست تلفظ ’’عَزَّه‘‘  یعنی  عین اور زا پر زبر،  زا پر تشدید  جب کہ آخر میں الف کے بجائے’’ة‘‘ ہے، جو وقف کی حالت میں’ ہ‘پڑھی جاتی ہے، مذکورہ نام صحابیات کے ناموں میں ملتا ہے، لہذا ان کی نسبت سے یہ نام رکھ سکتے ہیں۔نیز  ’’عِزا‘‘  یا ’’عِزه‘‘ عین کے زیر اور زا کے زبر و تشدید کے ساتھ  اگرچہ صحابیات میں اس تلفظ کے ساتھ نام نہیں ملتا،  تاہم مذکورہ تلفظ کے ساتھ بھی نام رکھ  سکتے ہیں، جس کے معنی عزت ، قوت، شرافت، غلبہ وغیرہ کے آتے ہیں۔

أسد الغابة في معرفة الصحابة  میں ہے:

"٧١٠٦- عزة الأشجعية

ب د ع: عزة الأشجعية مولاة أبي حازم من قومه. ٣٦٥٨ روى أشعث بن سوار، عن منصور، عن أبي حازم، عن مولاته عزة، قالت: سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: " ويلكن من الأحمرين: الذهب والزعفران ". أخرجها الثلاثة. ( ٧ / ١٩٢)

٧١٠٨- عزة بنت خابل

ب د ع: عزة بنت خابل الخزاعية بايعت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (٢٣٢٦) أخبرنا يحيى بن محمود، إجازة، بإسناده عن ابن أبي عاصم، حدثنا دحيم، حدثنا ابن أبي فديك، عن موسى بن يعقوب، عن عطاء بن مسعود الكعبي، عن عمته عزة بنت خايل، أخبرته " أنها خرجت حتى قدمت على رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فبايعها على أن لاتزنين، ولاتسرقين، ولاتؤذين فتبدين أو تخفين، قالت عزة: فأمّا الإيذاء فقد كانت عرفته وعلمته، وهو قتل الولد، وأما المخفي فلم أسأل عنه رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولم يخبرني به، وقد وقع في نفسي أنه إفساد الولد، فوالله لاأفسد لي ولدًا أبدًا، فلم تفسد لها ولدًا حتى ماتت". يعني: الغيل. أخرجه الثلاثة، إلا أنّ أبا عمر قال: عزة بنت كامل بالكاف، وقد ذكره مسلم: خابل بالخاء، كما ذكره ابن منده، وأبو نعيم، وهو الصواب.

٧١٠٩- عزة بنت أبي سفيان

ب س: عزة بنت أبي سفيان صخر بن حرب بن أمية القرشية الأموية أخت أم حبيبة، ومعاوية. ٣٦٦٠ روى الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، أن محمد بن مسلم هو الزهري كتب يذكر أن عروة حدثه، أن زينب بنت أبي سلمة حدثته، أن أم حبيبة، حدثتها أنها قالت: يا رسول الله، أنكح أختي عزة، فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أتحبين ذلك؟ " قالت: نعم، لست لك بمخلية، وأحب من شركني أختي، فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فإن تلك لا تحل لي "، وقيل: اسمها درة، وقيل: حمنة. وقد ذكرناها. أخرجها أبوعمر، وأبو موسى". ( ٧ / ١٩٣)

وفي المعجم الوسيط:

(عز)

فلَان عزا وَعزة وعزازة قوى وَبرئ من الذل وَيُقَال عز فلَان على فلَان كرم عَلَيْهِ وَالشَّيْء قل فَلَا يكَاد يُوجد وَالْأَمر عَلَيْهِ اشْتَدَّ يُقَال عز عَليّ أَن تفعل كَذَا اشْتَدَّ وشق فَهُوَ عَزِيز (ج) أعزة وأعزاء وعزاز وَفُلَانًا عزا غَلبه وقهره وَفِي التَّنْزِيل الْعَزِيز {فَقَالَ أكفلنيها وعزني فِي الْخطاب}.

 (2/ 598الناشر: دار الدعوة)

مذکورہ ناموں میں سے ’’عزۃ ‘‘ یا کسی اور صحابیہ کا نام رکھ لیا جائے ؛اس لیے کہ نا موں کے سلسلے میں بہتر یہی  ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے۔ 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں