بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مریض کے لیے روزہ توڑنا کب جائز ہے؟


سوال

 روزہ توڑنے کے لیے مرض کی کیا  حد هے؟

جواب

روزہ  دار اگر ایسا بیمار ہوگیا ہے کہ اگر روزہ نہیں توڑے گا تو جان جانے کا خطرہ ہے، یا  مرض کے بڑھ جانے کا  یا شفا میں تاخیر ہوجانے کا ، علامات، تجربہ یامسلمان ، ماہر،  دین دار   ڈاکٹر    کے بتانے سے    غالب گمان ہے تو  ان صورتوں میں روزہ توڑدینا جائز ہے، اس روزہ کی قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2 / 303):

" (قوله: لمن خاف زيادة المرض الفطر) لقوله تعالى {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] فإنه أباح الفطر لكل مريض لكن القطع بأن شرعية الفطر فيه إنما هو لدفع الحرج وتحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو إفساد عضو ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق وقيل عدالته شرط فلو برأ من المرض لكن الضعف باق وخاف أن يمرض سئل عنه القاضي الإمام فقال الخوف ليس بشيء كذا في فتح القدير وفي التبيين والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض ومراده بالخشية غلبة الظن كما أراد المصنف بالخوف إياها"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں