بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مریضوں کو زکوۃ کی مد میں دوائی دینا


سوال

اگر کوئی شخص ڈاکٹر ہے اور وہ اپنی زکوۃ کے پیسوں سے دوائیاں لے کر غریبوں کو دیتا ہے تو اس کی جائز صورت کیا ہے؟ کیوں کہ زکوۃ کا مالک بنانا ضروری ہے اور دوائیاں دیتے وقت ہر ایک کو مالک بنانا مشکل صورت ہے، مہربانی کر کے جواز کی صورت بتائیں۔

جواب

اگر کوئی ڈاکٹر اپنی زکوۃ کی رقم غریبوں کو دینا چاہتا ہے تو مالک بنانے کی آسان صورت یہی ہے کہ وہ غریب مریضوں کو دوائی دے دیا کرے، مستحقِ زکوۃ مریض کے ہاتھ میں دوائی دے دینے سے مریض اس دوائی کا مالک بن جائے گا اور زکوۃ کی ادائیگی درست ہو جائے گی، بس خیال رہے کہ جس کو زکوۃ کی رقم کی دوائیاں دے رہا ہے وہ مستحق ہو اور سید نہ ہو۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."

(كتاب الزكاة : 2 / 256 ، ط : سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں