بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مردوں کی عورتوں فضیلت کن امور میں ہے/ اخروھن من حیث اخرھن اللہ اس روایت کو فقھاء نے مرفوع کیوں ذکر کیا ہے۔


سوال

 مرد کو کن کن اشیاء میں عورتوں  پر  فوقیت  حاصل ہے اور’’ اخروھن من حیث اخرھن الله ‘‘میں ان کو پیچھے کرنے کا حکم کن کن امور میں ہے’’الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا‘‘(34)

حديث:أخروهن من حيث أخرهن الله (الدرة اليتيمة في تخريج أحاديث التحفة الكريمة )(2)ذكر في كشف الخفاعن المقاصد نقلاً عن الزركشي أنه موقوف على ابن مسعود، أخرجه عبد الرزاق والطبراني من طريقه، وليس بمرفوع، انظر تمامه في الكشف. لا أصل للحديث مرفوعًا، ومن العجيب تضافر الفقهاء على اعتباره حديثًا: كالسرخسي في المبسوط (1/180) من الحنفية، والقاضي عياض في إكمال المعلم(429/2) وابن رشد في بداية المجتهد(1/105 و173)والقرافي في الذخيرة(2/263)من المالكية، والتقي الحصني في كفاية الأخيار(131)من الشافعية، وابن قدامة في المغني(2/18 و24 و40)فمَن بعده من الحنابلة، والشوكاني في نيل الأوطار(3/176)من غيرهم.أقوالهم في عزوه: قال الحافظ الزيلعي في نصب الراية(2/36): "قلتحديث غريب مرفوعًا. قال السروجي في الغاية: كان شيخنا الصدر سليمان يرويه:(الخمر أم الخبائث، والنساء حبائل الشيطان، وأخروهن من حيث أخرهن الله)،ويعزوه إلى مسند رزين. وقد ذكر هذا الجاهل أنه في دلائل النبوة للبيهقي! وقد تتبعته فلم أجده فيه لا مرفوعا ولا موقوفا! والذي فيه مرفوعا: (الخمر جماع الإثم، والنساء حبالة الشيطان، والشباب شعبة من الجنون)، ليس فيه: (أخروهن من حيث أخرهن الله) أصلاً"! وقال ابن حجر الدراية في (1/171): "لم أجده مرفوعًا.ووهم من عزاه لدلائل النبوة للبيهقي مرفوعًا، وزعم السروجي عن بعض مشايخه أنه في مسند رزين". وقال الزركشي في التذكرة (ص62): "رأيت من عزاه إلى الصحيحين! وهو غلط". ونقله السخاوي في المقاصد الحسنة (رقم 41)، وأضاف: "وكذا من عزاه لدلائل النبوة للبيهقي مرفوعا، وعند رزين". قلت: ذكره رَزين العَبْدَري السَّرَقُسْطي في التجريد من حديث حذيفة، كما في نسخة من جامع الأصول (11/16) ومشكاة المصابيح (3/1438 رقم 5212). فائدة تتعلق بزيادات رزين: من المعروف أن الزيادات التي ينفرد بها رزين لا يكاد يوجد لها أصل، ويظهر ذلك جليًا بتتبع زياداته المذكورة في جامع الأصول ومشكاة المصابيح. وقد نص ابن الأثير في مقدمة جامع الأصول (1/50) أنه وجد لرزين في تجريده للصحاح الستة زيادات لا توجد في أصوله من هذه الكتب، ونبه المنذري على مثل ذلك في مواضع كثيرة في الترغيب والترهيب، ورأيت عددًا من الحفاظ ينص على عدم وقوفه على مفردات من زيادات رزين، وقال الذهبي في السير (20/205): أدخلَ كتابَه زيادات واهية، لو تنزّه عنها لأجاد. وقاله مختصرًا في تاريخ الإسلام (وفيات سنة 535 ص376)، وممن تكلم على كثرة الضعيف في كتاب رزين الحافظُ ابن الصلاح أول رسالة صلاة الرغائب، والألباني في المشكاة (1/6 و84)، وفصَّل أكثر في الضعيفة (207) فقال: "في كتاب التجريد أحاديث كثيرة لا أصل لها في شيء من هذه الأصول؛ كما يُعلم مما ينقله العلماء عنه مثل المنذري في الترغيب والترهيب.." الخ. ويأتي في الحديث الرابع مثال لزيادات رزين التي لا أصل لها. وممن أفاد أن الخبر ليس بمرفوع: قال ابن خزيمة في الصحيح (3/99 رقم 1700): الخبر موقوف غير مسند. وقال الكمال ابن الهمام الحنفي في شرح فتح القدير (1/360): الحديث لا يثبت رفعه، فضلاً عن كونه من المشاهير. وذكره الشمس بن عبد الهادي في رسالة لطيفة في أحاديث متفرقة ضعيفة (ص28) ضمن أحاديث يذكرها الفقهاء وغيرهم مما ليس له إسناد، أو له إسناد ولا يحتج به. وتقدم كلام الزيلعي وابن حجر. وممن قال بذلك المصنفون في الأحاديث المشتهرة والموضوعات: كالزركشي، والسخاوي (وتقدمت الإحالة لهما)، والسيوطي في الدرر المنتثرة (رقم 7)، وابن طولون في الشذرة (1/43 رقم 39)، والملا علي القاري في الأسرار المرفوعة (رقم 18)، والنجم محمد الغزي في إتقان ما يحسن (رقم 80)، والزرقاني في مختصر المقاصد (رقم 38)، وأحمد بن عبد الكريم الغزي في الجد الحثيث (رقم 10)، والعجلوني في كشف الخفاء (1/69)، والأمير الكبير في النخبة البهية (رقم 9)، والقاوقجي في اللؤلؤ المرصوع (رقم 2). وقال الألباني في الضعيفة (918): لا أصل له مرفوعا. وقال شيخنا عبد القادر الأرناؤوط في جامع الأصول (11/16): لم يثبت رفعه. قلت: والصحيح أنه من كلام ابن مسعود رضي الله عنه، ضمن قصة. رواه عبد الرزاق (3/149 رقم 5115) - ومن طريقه الطبراني في الكبير (9/295 رقم 9484)، ومن طريقه ابن حجر في التغليق (2/167) - عن الثوري، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن أبي معمر، عن ابن مسعود. ورواه مسدد (كما في المطالب العالية 3/633) عن أبي معاوية عن الأعمش به. قال الهيثمي في مجمع الزوائد (2/35): رجاله رجال الصحيح. وقال ابن حجر في الفتح (1/400 و2/350): إسناده صحيح. وكذلك قال الألباني في الضعيفة (918). ورواه الطبراني (9/296 رقم 9485) من طريق زائدة، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن ابن مسعود، لم يذكر أبا معمر. ورواه ابن خزيمة (3/99 رقم 1700) من طريق ابن عيينة، ثنا الأعمش، عن عمارة بن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابن مسعود. وقال الألباني في تعليقه عليه: إسناده صحيح. وعزاه في الدر المنثور (1/258) لسعيد بن منصور، ولم أجده في الأقسام المطبوعة منه. فهذا ظاهره الإختلاف على الأعمش، ومثله يَحتمل أن يكون له فيه إسنادان، وكلاهما صحيح، وإن كان الأقوى عنه الطريق الأولى، لاتفاق أبي معاوية والثوري عليه، أما إسقاط أبي معمر في رواية زائدة فلا يضر كثيرا، لأن إبراهيم يُرسل عن ابن مسعود ما سمعه من غير واحد عنه، فلعله كان ينشط أحيانا فيسنده، وأحيانا يرسله. وانظر لمسألة: هل أثر ابن مسعود (بتمامه) له حكم الرفع أم لا: فتح الباري لابن حجر (2/350) مع تعليق سماحة الشيخ ابن باز عليه، والضعيفة (2/319 رقم 918)، والتعليق على المطالب العالية (3/634).

اس سوال میں دو  باتیں مطلوب ہیں۔1) مردوں کو کن چیزوں میں  فوقیت ہے اور عورتوں  کو کن چیزوں میں مؤخر کیا ہے۔2)’’ اخروھن من حیث اخروھن اللہ‘‘ والی روایت کو محدثین نے موقوف ذکر کیا ہے،فقہاءنے اس کو مرفوع کیوں ذکر کیا ہے؟

جواب

 دونوں سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔

1)قرآن کریم کی سورۃ نساء کی آیت 34میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں پرمردوں کی فوقیت کاذکرفرمایاہے،مذکورہ آیت کریمہ کے ذیل میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے جوآپ کے سوال کاتشفی بخش جواب بھی ہے:

'' سورۃ النساء کے شروع سے یہاں تک بیشتر احکام اور ہدایات عورتوں کے حقوق سے متعلق آئی ہیں، جن میں ان مظالم کو مٹایا گیا ہے جو اسلام سے پہلے پوری دنیا میں اس صنف نازک پر توڑے جاتے تھے، اسلام نے عورتوں کو وہ تمام انسانی حقوق دیئے جو مردوں کو حاصل ہیں، اگر عورتوں کے ذمہ مردوں کی کچھ خدمات عائد کیں تو مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق فرض کئے۔

سورۃ البقرہ کی آیت میں ارشاد فرمایا: ’’ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف‘‘(۲:۸۲۲) یعنی ”عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں ‘‘۔ اس میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ سے فرمایا جاہلیت اور تمام دنیا کی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ کر دیا، ہاں یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورت کے اعتبار سے متماثل ہوں، بلکہ عورت پر ایک قسم کے کام لازم ہیں تو اس کے مقابل مرد پر دوسری قسم کے کام ہیں ، عورت امور خانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مردان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ اس کا مہر اور نفقہ یعنی تمام ضروری اخراجات کاا نتظام ہے، غرض اس آیت نے عورتوں کو مردوں کے مماثل حقوق دیدیئے۔

لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جس میں مردوں کو عورتوں پر تفوق اور ایک خالص فضیلت حاصل ہے، اس لئے اس آیت کے آخر میں فرمایا: ’’وللرجال علیھن درجة‘‘یعنی  مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔

ان آیات میں اسی درجہ کا بیان قرآن کریم کے حکیمانہ طرز بیان کے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے کہ مردوں کی یہ فضیلت اور تفوق خود عورتوں کی مصلحت اور فائدہ کے لئے اور عین مقتضائے حکمت ہے ،اس میں عورت کی نہ کسر شان ہے نہ اس کا کوئی نقصان ہے۔

ارشاد فرمایا:’’ الرجال قومون علی النسآء‘‘(5:43) قوام، قیام، قیم عربی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو، اسی لئے اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموماً حاکم کیا گیا ہے، یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں، مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلاً اور عرفاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے وقت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے، جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لئے اس کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے، اسی طرح قبائلی نظام میں بھی اس کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی اور کسی ایک شخص کو قبیلہ کا سردار اور حاکم مانا گیا ہے، اسی طرح اسی عائلی نظام میں جس کو خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے، عورتوں اور بچوں کے مقابل  اس کام کے لئے حق تعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا کہ ان کی علمی اور عملی قوتیں بہ نسبت عورتوں، بچوں کے زیادہ ہیں اور یہ ایسا بدیہی معاملہ ہے کہ کوئی سمجھدار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیت میں’’وللرجال علیھن درجة‘‘(2:228) فرما کر اور سورہ نساء کی آیت متذکرہ میں ’’الرجال قومون علی النسآء ‘‘فرما کر یہ بتلا دیا گیا کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم مماثل ہیں، لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں اور قرآن کریم کی دوسری آیات میں یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور استبداد کی حکومت نہیں، بلکہ حاکم یعنی مرد بھی قانون شرع اور مشورہ کا پابند ہے، محض اپنی طبیعت کے تقاضہ سے کوئی کام نہیں کر سکتا، اس کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’عاشروھن بالمعروف‘‘ (5:91) یعنی عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو ۔

اسی طرح دوسری آیت میں’’عن تراض منھما وتشاور‘‘ (2:332) کی تعلیم ہے جس میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ امور خانہ داری میں بیوی کے مشورہ سے کام کریں، اس تفصیل کے بعد مرد کی حاکمیت عورت کے لئے کسی رنج کا سبب نہیں ہو سکتی، تاہم چونکہ یہ احتمال تھا کہ مردوں کی اس فضیلت اور اپنی محکومیت سے عورتوں پر کوئی ناگوار اثر ہو، اس لیےحق تعالی نے اس جگہ صرف حکم بتلانے اور جاری کرنے پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ خود ہی اس کی حکمت اور وجہ بھی بتلا دی، ایک وہبی جس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں، دوسرے کسبی جو عمل کا اثر ہے۔

پہلی وجہ یہ ارشاد فرمائی’’بما فضل اللہُ بعضھم علی بعض‘‘، یعنی اللہ تعالی نے دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو ایک پر بڑائی دی ہے، کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے، جیسے ایک خاص گھر کو اللہ نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دیدیا، بیت المقدس کو خاص فضیلت دیدی، اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خدا داد فضیلت ہے جس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بے عملی کا کوئی دخل نہیں ۔

دوسری وجہ کسبی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، مہر ادا کرتے ہیں اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں ، ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا،مردوں کی افضلیت کے بیان کے لئے قرآن حکیم کا عجیب اسلوب: پہلی وجہ کے بیان میں مختصر طریقہ یہ تھا کہ رجال اور نساء کی طرف ضمیریں عائد کر کے’’فضلھم علیھن‘‘ فرما دیا جاتا ، مگر قرآن کریم نے عنوان بدل کر’’بعضھم علی بعض‘‘ کے الفاظ اختیار کئے، اس میں یہ حکمت ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جزءقرار دے کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اگر کسی چیز میں مردوں کی فوقیت اور افضلیت ثابت بھی ہو جائے تو اس کی ایسی مثال جیسے انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے، تو جس طرح سرکا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح مرد کا حاکم ہونا عورت کے درجہ کو نہیں گھٹاتا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مثل اعضاءو اجزاء کے ہیں، مرد سر ہے تو عورت بدن۔

اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس عنوان سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ یہ افضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے، جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی و عملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اور صفت حاکمیت میں بھی مرد سے فائق ہو جائے۔

مرد اور عورت کے مختلف اعمال تقسیم کار کے اصول پر مبنی ہیں:

 دوسری وجہ اختیاری جو بیان کی گئی ہے کہ مرد اپنے مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، اس میں بھی چند اہم امور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مثلاً ایک تو اس شبہ کا ازالہ ہے جو آیات میراث میں مردوں کا حصہ دوہرا اور عورتوں کا اکہرا ہونے سے پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ اس آیت نے اس کی بھی ایک وجہ بتلا دی کہ مالی ذمہ داریاں تمام تر مردوں پر ہیں، عورتوں کا حال تو یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کے تمام مصارف کی ذمہ داری باپ پر ہے اور شادی کے بعد شوہر پر اس لئے اگر غور کیا جائے تو مرد کو دوہرا حصہ دینا اس کو کچھ زیادہ دینا نہیں ہے، وہ پھر لوٹ کر عورتوں ہی کو پہنچ جاتا ہے۔

دوسرا اشارہ ایک اہم اصول زندگی کے متعلق یہ بھی ہے کہ عورت اپنی خلقت اور فطرت کے اعتبار سے نہ  اس کی متحمل ہے کہ اپنے مصارف خود کما کر پیدا کرے، نہ اس کے حالات اس کے لئے سازگار ہیں کہ وہ محنت، مزدوری اور دوسرے ذرائع کسب میں مردوں کی طرح دفتروں اور بازاروں میں پھرا کرے، اس لئے حق تعالی نے اس کی پوری ذمہ دری مردوں پر اس کے بالمقابل نسل بڑھانے کا ذریعہ عورت کو بنایا گیا ہے، بچوں کی اور امور خانہ داری کی ذمہ داری بھی اسی پر ڈال دی گئی ہے، جبکہ مرد ان امور کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس لئے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ عورت کو اپنے نفقات میں مرد کا محتاج کر کے اس کا رتبہ کم کر دیا گیا ہے، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر ڈیوٹیاں تقسیم کر دی گئی ہیں، ہاں ڈیوٹیوں کے درمیان جو باہم تفاضل ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں وجہوں کے ذریعہ یہ بتلا دیا گیا کہ مردوں کی حاکمیت سے نہ عورتوں کا کوئی درجہ کم ہوتا ہے اور نہ ان کی اس میں کوئی منفعت ہے، بلکہ اس کا فائدہ بھی عورتوں ہی کی طرف عائد ہوتا ہے۔

صالح بیوی:- اس آیت کے شروع میں بطور ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ مرد عورت پر حاکم ہے اس کے بعد نیک و بد عورتوں کا بیان اس طرح فرمایا:’’فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ الله‘‘”یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے ان کی اطاعت کرتی ہیں اور مردوں کے پیٹھ پیچھے بھی اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں ۔“ یعنی اپنی عصمت اور گھر کے مال کی حفاظت جو امور خانہ داری میں سب سے اہم ہیں، ان کے بجا لانے میں ان کے لئے مردوں کے سامنے اور پیچھے کے حالات بالکل مساوی ہیں، یہ نہیں کہ ان کے سامنے تو اس کا اہتمام کریں، اور ان کی نظروں سے غائب ہوں تو اس میں لاپرواہی برتیں ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کے طور پر ارشاد فرمایا کہ:”یعنی بہترین عورت وہ ہے کہ جب تم اس کو دیکھو تو خوش رہو اور جب اس کو کوئی حکم دو تو اطاعت کرے اور جب تم غائب ہو تو اپنے نفس اور مال کی حفاظت کرے۔

اور چونکہ عورتوں کی یہ ذمہ داریاں یعنی اپنی عصمت اور شوہر کے مال کی حفاظت دونوں آسان کام نہیں، اس لئے آگے فرما دیا’’بما حفظالله‘‘ یعنی اس حفاظت میں اللہ تعالی عورت کی مدد فرماتے ہیں، انہی کی امداد اور توفیق سے وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں، ورنہ نفس و شیطان کے مکائد ہر وقت ہر انسان مرد و عورت کو گھیرے ہوئے ہیں اور عورتیں خصوصاً اپنی علمی اور عملی قوتوں میں بہ نسبت مرد کمزور بھی ہیں، اس کے باوجود وہ ان ذمہ داریوں میں مردوں سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں، یہ سب اللہ تعالی کی توفیق اور امداد ہے، یہی وجہ ہے کہ بے حیائی کے گناہوں میں بہ نسبت مردوں کی عورتیں بہت کم مبتلا ہوتی ہیں ۔

اطاعت شعار، تابعدار عورتوں کی فضیلت جہاں اس آیت سے مفہوم ہوتی ہے وہاں اس سلسلہ میں احادیث بھی وارد ہیں ۔ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو، اس کے لئے استغفار کرتے ہیں پرندے ہوا میں، اور مچھلیاں دریا میں، اور فرشتے آسمانوں میں اور درندے جنگلوں میں ۔ (بحر محیط).

خلاصہ مضمون:- آیت سے بنیادی اصول کی حیثیت سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ پچھلی آیات کے ارشادات کے مطابق مردوں اور عورتوں کے حقوق باہم متماثل ہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کا اس وجہ سے زیادہ اہتمام کیا گیا ہے کہ وہ بہ نسبت مرد کے ضعیف ہیں، اپنے حقوق اپنی قوت بازو کے ذریعہ مرد سے حاصل نہیں کر سکتیں، لیکن اس مساوات کے یہ معنی نہیں کہ عورت و مرد میں کوئی تفاضل یا درجہ کا کوئی فرق ہی نہ ہو، بلکہ بقتضائے حکمت و انصاف دو سبب سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے:

اول:تو جنس مرد کو اپنے علمی اور عملی کمالات کے اعتبار سے عورت کی جنس پر ایک خدا داد فضیلت اور فوقیت حاصل ہے، جس کا حصول جنس عورت کے لئے ممکن نہیں ، افراد و احاد اور اتفاقی واقعات کا معاملہ الگ ہے۔

دوسرے یہ کہ عورتوں کی تمام ضروریات کا تکفل مرد اپنی کمائی اور اپنے مال سے کرتے ہیں ، پہلا سبب وہی غیر اختیاری اور دوسرا کسبی اور اختیاری ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد میں سے بعض کو حاکم بعض کو محکوم بنانے کے لئے عقل و انصاف کی رو سے دو چیزیں ضروری تھیں، ایک جس کو حاکم بنایا جائے اس میں علم و عمل کے اعتبار سے حاکمیت کی صلاحیت، دوسرے اس کی حاکمیت پر محکوم کی رضامندی، پہلا سبب مرد کی صلاحیت حاکمیت کو واضح کر رہا ہے اور دوسرا سبب محکوم کی رضا مندی کو، کیونکہ بوقت نکاح جب عورت اپنے مہر اور نان نفقہ کے تکفل کی شرط پر نکاح کی اجازت دیتی ہے تو اس کی اس حاکمیت کو تسلیم اور منظور کرتی ہے۔

الغرض اس آیت کے پہلے جملہ میں خانگی اور عائلی نظام کا ایک بنیادی اصول بتلایا گیا ہے کہ اکثر چیزوں میں مساوات حقوق کے باوجود مرد کو عورت پر ایک فضیلت حاکمیت کی حاصل ہے اور عورت محکوم و تابع ہے۔اس بنیادی اصول کے ماتحت عملی دنیا میں عورتوں کے دو طبقے ہو گئے، ایک وہ جنہوں نے اس بنیادی اصول اور اپنے معاہدہ کی پابندی کی اور مرد کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کی ،  دوسرے وہ جو اس اصول پر پوری طرح قائم نہ رہا، پہلا طبقہ تو خانگی امن و اطمینان کا خود ہی کفیل ہے، اس کو کسی اصلاح کی حاجت نہیں ،دوسرے طبقہ کی اصلاح کے لئے آیت کے دوسرے جملہ میں ایک ایسا مرتب نظام بتلایا گیا کہ جس کے ذریعہ گھر کی اصلاح گھر کے اندر ہی ہو جائے اور میاں بیوی کا جھگڑا انہیں دونوں کے درمیان نمٹ جائے کسی تیسرے کی مداخلت کی ضرورت نہ ہو، اس میں مردوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر عورتوں سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس کرو تو سب سے پہلا کام یہ کرو کہ سمجھا بجھا کر ان کی ذہنی اصلاح کرو، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہو گیا عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر فہمائش سے کام نہ چلا تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کو تنبیہ کرنے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے خود علیحدہ بستر پر سو ؤ،یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگی تو جھگڑا یہیں ختم ہو گیا اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو تیسرے درجہ میں معمولی مار نے کی بھی اجازت دے دی گئی، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر و زخم نہ ہو ، مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے لوگ ایسا نہیں کریں گے۔

بہرحال اس معمولی مارپیٹ سے بھی اگر معاملہ درست ہو گیا تب بھی مقصد حاصل ہو گیا، اس میں مردوں کو عورتوں کی اصلاح کے لئے جہاں یہ تین اختیارات دیئے گئے وہیں آیت کے آخر میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’فان اطعنکم فلاتبغوا علیھن سبیلا‘‘ یعنی اگر ان سہ نمبری تدبیروں سے وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو اب تم بھی زیادہ بال کی کھال نہ نکالو“ اور الزام تراشی میں مت لگو، بلکہ کچھ چشم پوشی سے کام لو اور خوب سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالی نے عورتوں پر تمہیں کچھ بڑائی دی ہے تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی تمہارے اوپر بھی مسلط ہے، تم زیادتی کرو گے تو اس کی سزا تم بھگتو گے۔"

( سورۃ النساء، ج: 2، ص: 395۔403، ط: مکتبۃ المعارف  القرآن)

2)نیز واضح  رہے کہ عام طور پر صحابی حدیث کی روایت کرتے وقت روایت کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرتے ہیں جسے ’’حدیثِ مرفوع‘‘  کہا جاتا ہے، لیکن اگر  حدیث روایت کرتے وقت صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اس حدیث کی نسبت نہ کی ہو، بلکہ خود سے اس کو روایت کیا ہو اس حدیث کو ’’حدیثِ موقوف‘‘  کہا جاتا ہے، حدیثِ موقوف اصطلاح کے اعتبار سے تو جدا نام رکھتی ہے، لیکن خلافِ قیاس امور (یعنی عبادات و اعمال اور عقائد و امورِ آخرت وغیرہ) میں حدیثِ موقوف بھی حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے جو روایت  ہے’’ اخروھن من حیث اخرھن الله ‘‘ اس کو محدثین نے موقوف ذکر کیا یعنی خود حضرت  عبد اللہ بن  مسعود رضی اللہ عنہ  نے اس کی نسبت حضور ﷺ کی طرف نہیں کی،لیکن فقہاء(احناف،مالکیہ،شوافع،حنابلہ) نے اس کو نقل کرتے ہوئے اس کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کی،اس کی وجہ یہ ہے فقہاء کا اصل کام روایت کے معنی سے ہوتا ہے،اس کے الفاظ اور سند کی طرف اس طرح خصوصیت کی طرح دھیان نہیں کرتے،جس طرح محدثین حضرات کرتے ہیں؛ اس وجہ سے فقہاء کی کتابوں بعض ایسی روایتیں ملتی ہے،جن کے الفاظ کی سند نہیں ہوتی،لیکن اس کا معنی دوسری احادیث سے ضرور ثابت ہوتا ہے،اس طرح  یہ روایت ہے جو حضرت  عبداللہ بن   مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور خلاف قیاس امور میں سے ہے اور خلاف قیاس امور میں صحابی  سے مروی روایت مرفوع روایت کے  درجے میں ہوتی ہے،اس وجہ سے فقہاء نے اس کی نسبت  حضورﷺ کی طرف کی،کیوں کہ صحابی اپنی طرف شریعت میں کوئی بات نہیں کرسکتا،ضرور اس نے یہ   بات حضورﷺ سے سنی ہوگی اور پھر  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  جیسے بڑے صحابی جن  کی اکثر زندگی حضور  ﷺ کی خدمت میں گزری ضرور بہ ضرور حضور ﷺ سے یہ روایت سنی ہوگی،اس وجہ سے فقہاء نے اس کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کی ہے۔

تدریب الراوی میں ہے:

"من المرفوع أيضا ما جاء عن الصحابي، ومثله ‌لا ‌يقال ‌من ‌قبل ‌الرأي، ولا مجال للاجتهاد فيه فيحمل على السماع، جزم به الرازي في " المحصول "، وغير واحد من أئمة الحديث.وترجم على ذلك الحاكم في كتابه " معرفة المسانيد التي لا يذكر سندها "، ومثله بقول ابن مسعود: من أتى ساحرا أو عرافا فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم.وقد أدخل ابن عبد البر في كتابه " التقصي " عدة (63 \ ب) أحاديث من ذلك، مع أن موضوع الكتاب للمرفوعة، منها حديث سهل بن أبي خيثمة في صلاة الخوف، وقال في " التمهيد ": هذا الحديث موقوف على سهل، ومثله ‌لا ‌يقال ‌من ‌قبل ‌الرأي.نقل ذلك العراقي، وأشار إلى تخصيصه بصحابي لم يأخذ عن أهل الكتاب."

(انواع الحديث، ‌‌النوع السابع، 212/1، ط: دار طيبة)

شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي میں ہے:

"و‌‌ما جاء عن صحابي موقوفا عليه، ومثله ‌لا ‌يقال ‌من ‌قبل ‌الرأي حكمه حكم المرفوع كما قال الإمام فخر الدين في المحصول فقال إذا قال الصحابي قولا، ليس للاجتهاد فيه مجال فهو محمول على السماع تحسينا للظن به."

(‌‌القسم الثالث الضعيف، ‌‌فروع، ما جاء عن صحابي موقوفا عليه، 198/1، ط: دار الكتب العلمية)

ما له حكم الرفع من أقوال الصحابة وأفعالهم   میں ہے:

"قال الحافظ زين الدين عبد الرحيم بن الحسين العراقيّ :ما جاء عن صحابيّ موقوفاً عليه ومثله لا يقال من قبل الرأي حكمه حكم المرفوع، كما قال الإمام فخر الدين في " المحصول "، فقال: إذا قال الصحابيّ قولاً ليس للاجتهاد فيه مجال فهو محمول على السماع تحسيناً للظنّ به."

(‌‌المبحث الرابع: ما وقف على الصحابيّ مما ليس للرأي فيه مجال، ص: 68، ط: دار الخضيري للنشر والتوزيع)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں