بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں کے لیے جب سونا پہننا ممنوع ہے تو پھر حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے کیسے کنگن پہنے؟


سوال

سراقہ جس نے ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیچھا کیا تھا، پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امان لکھ کے دی تھی، اور کنگن کی پیشن گوئی فرمائی تھی  کہ تم اس بادشاہ کے کنگن پہنو گے، پھر شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ علاقہ فتح ہوا تھا، اور انہیں وہ کنگن پہنائے گئے تھے، کیا یہ واقعہ درست ہے؟ اور مرد کے لیے کنگن پہننا تو ناجائز ہے، تو انہیں کنگن کیسے پہنائے گئے؟

جواب

واضح رہے کہ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے یہ پیشن گوئی فرمائی تھی کہ آپ کسری کے کنگن پہنوگے، اور یہ پیشن گوئی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پوری ہوئی، تاہم مرد کے لیے سونا تو ممنوع ہی ہے، البتہ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے لیے چوں کہ آپ ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی اور وہ پیشن گوئی پوری ہونی تھی، تو اسی پیشن گوئی کی تکمیل کے لیے انہیں سونے کے کنگن پہنائے گئے، اور مزید یہ کہ کنگن انہوں نے مستقل طور پر نہیں پہنے تھے، بلکہ اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان پر انہوں نے وہ اتار دئیے تھے، لہذا اس واقعہ سے مردوں کے لیے سونا پہننے کے جواز پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

الإصابۃ فی تمييز الصحابۃ میں ہے:

"عن الحسن- أن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم قال لسراقة بن مالك: «كيف بك إذا لبست سواري كسرى؟» قال: فلما أتي عمر بسواري كسرى ومنطقته وتاجه دعا سراقة فألبسه، وكان رجلا أزبّ كثير شعر السّاعدين، فقال له: ارفع يديك، وقل: الحمد للَّه الّذي سلبهما كسرى بن هرمز وألبسهما سراقة الأعرابيّ.

وروى ذلك عنه ابن أخيه عبد الرّحمن بن مالك بن جعشم، وروى عنه ابن عباس وجابر، وسعيد بن المسيّب، وطاوس. قال أبو عمر: مات في خلافة عثمان سنة أربع وعشرين. وقيل: بعد عثمان."

(‌‌ذكر من اسمه سراقة، ‌سراقة بن مالك بن جعشم، ج: 3، ص: 35، ط: دار الكتب العلمية)

شرح الزرقانی على المواهب اللدنيۃ بالمنح المحمديۃ میں ہے:

"وليس في هذا استعمال الذهب وهو حرام؛ لأنه إنما فعله تحقيقا لمعجزة الرسول من غير أن يقرهما، فإنه روي أنه أمره، فنزعهما وجعلهما في الغنيمة، ومثل هذا لا يعد استعمالا."

(‌‌الفصل الثالث: في إنبائه صلى الله عليه وسلم بالأنباء المغيبات، ج: 10، ص: 130، ط: دار الكتب العلمية)

الشفا بتعريف حقوق المصطفى میں ہے:

"وليس في هذا استعمال للذهب وليس الرجال له وهو من المحرمات لأنه لا يفعله إلا تحقيقا وتصديقا لقوله صلى الله عليه وسلم من غير ان يقرها ومثله لا يعد استعمالا."

(‌‌الباب الرابع فيما أظهره الله على يديه منه المعجزات وشرفه به من الخصائص والكرامات، ‌‌الفصل الرابع والعشرون ما أطلع عليه من الغيوب وما يكون، ج: 1، ص: 674، ط: دار الفيحاء - عمان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں