بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں کے لئے ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنے کا حکم


سوال

مردوں کے لئے ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنے کا حکم  دلائل کے ساتھ واضح فرمائیں۔

جواب

مردوں کے لیے ٹخنے ڈھانپنا  گناہ کبیرہ اور حرام ہے جب کہ عورتوں کے لیےٹخنے کھلا رکھنا گناہ اور  حرام ہے۔

اس سلسلے میں  عوام الناس میں  یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے  کہ ٹخنے صرف نماز میں کھلے ہونے چاہیئں اس لئے جب مسجد آتے ہیں تو ٹخنے کھول لیتے ہیں،جب کہ شرعاً  ٹخنے کھولنا صرف نماز ہی میں ضروری نہیں بلکہ جب کھڑے ہوں یا چل رہے ہوں تو ٹخنے کھلے رکھنا ضروری ہے، ورنہ گناہ کے مرتکب ہوں گے اور یہ عمل  اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اتنا  نا پسندیدہ ہے،کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر  جہنم کی اوراللہ پاک کی رحمت کی نگاہوں سے محرومی کی وعیدات ارشاد فرمائیں ہیں۔

بخاری شریف کی حدیث ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار) ."

ترجمہ:"اِزار سے (پاجامہ،لُنگی، شلوار،کُرتہ،عمامہ ،چادر وغیرہ سے)ٹخنوں کا جو حصہ چھپے گا دوزخ میں جلے گا۔"

(کتاب اللباس،باب ما اسفل من الکعبین ففی النار،بخاری ،ج:5،ص،182،ط:دار ابن كثير، دار اليمامة،بیروت)

و فیہ ایضاً:

"عن سالم بن عبد الله، عن أبيه رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة). قال أبو بكر: يا رسول الله، إن أحد شقي إزاري يسترخي، إلا أن أتعاهد ذلك منه؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لست ممن يصنعه خيلاء)."

(کتاب اللباس،باب: من جر إزاره من غير خيلاء،بخاری ،ج:5،ص،181،ط:دار ابن كثير، دار اليمامة،بیروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عمر قال: مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وفي إزاري استرخاء فقال: «يا عبد الله ‌ارفع ‌إزارك» فرفعته ثم قال: «زد» فزدت فما زلت أتحراها بعد فقال: بعض القوم: إلى أين؟ قال: «إلى أنصاف الساقين» . رواه مسلم."

(كتاب الباس،فصل ثالث،ج:2،ص:250،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ينبغي أن يكون ‌الإزار فوق الكعبين إلى نصف الساق وهذا في حق الرجال، وأما النساء فيرخين ‌إزارهن أسفل من ‌إزار الرجال ليستر ظهر قدمهن. إسبال الرجل ‌إزاره أسفل من الكعبين إن لم يكن للخيلاء ففيه كراهة تنزيه، كذا في الغرائب."

(کتاب الکراھیه،‌‌الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره،ج:5،ص:333،ط:رشدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں