بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں اور عورتوں کے لیے عورت کی آواز میں نعتیں سننا


سوال

عورت کی آواز میں نعت کی آڈیو (میوزک یا بغیر میوزک) دوسرے مردوں اور عورتوں کے لیے سننا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر عورت کی آواز میں نعت  میوزک کے بغیر ہو  تو دوسری عورتوں کے لیے اس کا سننا جائز ہے،  اور مردوں کو  اگر اس سے لذت محسوس ہوتی ہو  یا فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو  ان کے لیے خواتین کی آواز میں  نعتیں سننا جائز نہیں ہوگا، چوں کہ فتنہ کے اندیشہ کا غلبہ موجود ہے، اور عورت کی آواز میں نعتیں سننے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، اس لیے مردوں کے لیے  نامحرم عورتوں کی آواز میں نعتیں سننے سے  اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اور میوزک کے ساتھ نعت پڑھنا یا سننا جائز نہیں ہے، خواہ نعت خواں مرد ہو یا عورت، اسی طرح سننے والا مرد ہو یا عورت۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 406):

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح

(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال - عليه الصلاة والسلام - «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها - عليه الصلاة والسلام - من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں