بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مردانہ کمزوری محسوس کرنے والے کے لیے شادی کا حکم


سوال

 اگر کسی کو مردانہ کمزوری ہو،  اس کی شادی کا شریعت میں کیا حکم ہے؟نیز گھر والوں کو اس کی  شادی  زبردستی  کرنی چاہیے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کو اپنے بارے  میں یقینی طور پر یہ معلوم ہو کہ وہ  مردانہ کمزوری کا شکار  ہے،اور وہ جماع کرنے کے قابل  نہیں ہے، توایسی صورت میں ایسے شخص  کو شادی نہیں  کرنی  چاہیے، اور گھر والوں کوبھی ایسے شخص کو ( باوجود اس کی اس کیفیت کو جانتے ہوئے) شادی پرمجبور نہیں کرنا چاہیے، اور ایسے شخص کو چاہیے کہ  کسی ماہر، مستند،متدین طبیب سے رجوع کرکے اپنا علاج کرائے، جب تک تندرست نہ ہوجائے شادی سے اجتناب کرے۔

نیل الاوطار میں ہے:

"وقد استدل بهذا الحديث على أن من لم يستطع الجماع فالمطلوب منه ترك التزويج لإرشاده - صلى الله عليه وسلم - من كان كذلك إلى ما ينافيه ويضعف داعيه وذهب بعض أهل العلم إلى أنه مكروه في حقه."

(كتاب النكاح، ١٢٢/٦، ط:دار الحديث، مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك .(قوله: أي القدرة على وطء) أي الاعتدال في التوقان أن لا يكون بالمعنى المار في الواجب والفرض وهو شدة الاشتياق، وأن لا يكون في غاية الفتور كالعنين ولذا فسره في شرحه على الملتقى بأن يكون بين الفتور والشوق وزاد المهر والنفقة؛ لأن العجز عنهما يسقط الفرض فيسقط السنية بالأولى، وفي البحر والمراد حالة القدرة على الوطء، والمهر والنفقة مع عدم الخوف من الزنا والجور وترك الفرائض والسنن، فلو لم يقدر على واحد من الثلاثة أو خاف واحدا من الثلاثة أي الأخيرة فليس معتدلا فلا يكون سنة في حقه كما أفاده في البدائع. اهـ. (قوله: ومكروها) أي تحريما بحر (قوله: فإن تيقنه) أي تيقن الجور حرم؛ لأن النكاح إنما شرع لمصلحة تحصين النفس، وتحصيل الثواب، وبالجور يأثم ويرتكب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان هذه المفاسد بحر وترك الشارح قسما سادسا ذكره في البحر عن المجتبى وهو الإباحة إن خاف العجز عن الإيفاء بموجبه. اهـ. أي خوفا غير راجح، وإلا كان مكروها تحريما؛ لأن عدم الجور من مواجبه."

(كتاب النكاح، ٧/٣، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں