اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب میت کو غسل دے دیا جاتا ہے تو اس کے بعد لوگ کہتے ہیں کہ آپ کلمہ پڑھ لیں، یعنی کوئی کلمہ طیبہ پورا پڑھ لیتا ہے ،کوئی صرف لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی تسبیح کرلیتے ہیں،کبھی آواز ملا کر اُونچا بھی پڑھا جاتا ہے، آہستہ بھی بہرحال کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ،پھر اکثر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کب سے پڑھ رہے ہیں آپ دعا کروادیجیے،تاکہ سب لوگ دعا میں شریک ہو جائیں ،مستقل تو اسے اختیار نہیں کیا جاتا،لیکن اکثر ایسی صورت پیش آجاتی ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مردےکو غسل دینے کے بعداکٹھے ہوکرکلمہ طیبہ آواز ملاکراُونچا پڑھنااور اس کے بعد اجتماعی دعا کرناشرعا ًجائز نہیں ہے،البتہ غسل دینے کے بعد ایصال ِثواب کے لیے آہستہ آوازسے تلاوت کرنایاذکرکرنااور کلمہ طیبہ کا وردکرنا جائزہے ،لیکن اس کو ایک اجتماعی شکل دینااور لوگوں سے کلمہ پڑھوانا، لوگوں کو دعامیں شریک ہونے کاکہنااور اس عمل کولازم سمجھناشرعا ًناجائز ہے، اس سے اجتناب کریں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجسا كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة، اهـ
قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لا يكره فيما يظهر فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهرا قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهرا لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولا يرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ وفي القنية لا بأس بالقراءة راكبا أو ماشيا إذا لم يكن ذلك الموضع معدا للنجاسة فإن كان يكره اهـ وفيها لا بأس بالصلاة حذاء البالوعة إذا لم تكن بقربه."
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃالجنازۃ، ج: 2، ص: 194، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100697
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن