بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد استاد کتنی عمر کی لڑکیوں کو آن لائن یا پھر سامنے بٹھا کر قرآن پڑھا سکتا ہے ؟


سوال

مرد استاد کتنی عمر کی لڑکیوں کو آن لائن یا پھر سامنے بٹھا کر قرآن پڑھا سکتا ہے ؟ براہ مہربانی تمام احکامات سے آگاہ کریں۔

جواب

 جو لڑکیاں بالغہ یا قریب البلوغ نہ ہوں،(  عمر تقریباً نو سال سے کم ہو) توان لڑکیوں کا  مرد استاد سے پڑھنا جائز  و درست ہے،خواہ آن لائن ہو یا سامنے بٹھا کر پڑھایا جائے۔ (آن لائن تعلیم کے حوالے سے تفصیل آگے آرہی ہے۔)

قریب البلوغ یا بالغ لڑکیوں کو پڑھانے کا حکم یہ ہے کہ  مرد استاد کا انہیں سامنے بٹھا کر  پڑھانا کسی صورت جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس عمر میں پردہ کے احکامات لاگو ہوجاتے ہیں ، تاہم اگر پردہ کے پیچھے سے  یا آن لائن تعلیم کی ترتیب ہو  اور  اس میں  صرف ایک طالبہ ہو تو اگرچہ یہ صورت مکمل طور پر خلوت کی نہیں ہے، لیکن حکماً خلوت ہے ، فتنہ میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے؛ لہذا ایک وقت میں صرف ایک طالبہ کو آن لائن پڑھانا فتنہ کے احتمال کی وجہ سے  درست نہیں ہوگا، ہاں اگر اس ایک طالبہ کے ساتھ دوران درس اس طالبہ کا کوئی محرم مرد یا کوئی خاتون وغیرہ موجود ہو تو یہ صورت جائز ہوگی۔

اور اگر   دو یا اس سے زیادہ طالبات ہوں تو ان طالبات کو مرد استاذ کا پڑھانا (حجاب وستر اور تعلیم کی) دیگر شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے جائز ہوگا، نیز جائز صورتوں میں بھی دورانِ درس  غیر ضروری   باتوں سے  اور ہنسی مذاق سے قطعی طور پر  اجتنا ب کرنا ضروری ہوگا۔

اس میں یہ واضح رہے کہ  آن لائن  تعلیم وتد ریس کے جائز ہونے کے لیے  یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو ،ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیوکال ،لائیو ویڈیووغیرہ )کے ذریعہ  نہ  ہو ،اگر دوران تدریس  کیمرے کا ستعمال ہو تو  کیمرے کا رخ ( فوکس )غیرجان دار  چیز ( بورڈ ، کتاب وغیرہ )   پر ہو،کیمرے کے سامنے  استاد یا طالب علم/طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے۔

"الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"‌‌اختلاط الرجال بالنساء: يختلف حكم اختلاط الرجال بالنساء بحسب موافقته لقواعد الشريعة أو عدم موافقته، فيحرم الاختلاط إذا كان فيه:

أ - الخلوة بالأجنبية، والنظر بشهوة إليها.

ب - تبذل المرأة وعدم احتشامها.

ج - عبث ولهو وملامسة للأبدان كالاختلاط في الأفراح والموالد والأعياد، فالاختلاط الذي يكون فيه مثل هذه الأمور حرام، لمخالفته لقواعد الشريعة.

قال تعالى: {قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم} . . . {وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن} .

وقال تعالى عن النساء: {ولا يبدين زينتهن} وقال: {إذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب} (1) . ويقول النبي صلى الله عليه وسلم: لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان (2) وقال صلى الله عليه وسلم لأسماء بنت أبي بكر يا أسماء إن المرأة إذا بلغت المحيض لم يصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا وأشار إلى وجهه وكفيه ...

ويجوز الاختلاط إذا كانت هناك حاجة مشروعة مع مراعاة قواعد الشريعة."

(اختلاط، ج:2، ص:290-291، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

و فیہ ایضاً:

"ويجب أن يكون تعليم النساء مع مراعاة آداب أمر الشارع المرأة بالتزامها للحفاظ على عرضها وشرفها وعفتها، من عدم الاختلاط بالرجال، وعدم التبرج، وعدم الخضوع بالقول إذا كانت هناك حاجة للكلام مع الأجانب."

(تعليم و تعلم، تعليم النساء، ج:13، ص:13، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مراہقہ اور بالغہ لڑکیوں کو بلا حجاب پڑھانا درست نہیں، پردہ کا اہتمام ہو اور خلوت نہ ہو تو گنجائش ہےمگر خلاف احتیاط ہے لہذ ا محرم یا عورت ہی سے پڑھایا جائے ۔۔۔"

(کتاب الصلاۃ، صلاۃ من یصلح اماما لغیرہ، ج:4، ص:186، ط:دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں