بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد اور عورت کی نماز میں فرق


سوال

عورت اور مرد  کی نماز کے اختلاف پر فتویٰ اور اگر کوئی ڈاکومنٹ ہے تو ارسال کر دیں ۔

جواب

حضراتِ فقہاء رحمہم اللہ  نے احادیثِ شریفہ اور آثار ِصحابہ  وغیرہ کوسامنے رکھ کر عورت اورمرد کی نماز کی کیفیت میں  جو فرق بیان  کیے ہیں ان کا  خلاصہ درج ذیل ہے:

(۱)  عورت تکبیر تحریمہ میں صرف کندھوں اور سینوں تک ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کو کانوں کی لو تک ہاتھ اُٹھانے کا حکم ہے۔

 (۲)  عور ت دوپٹہ اور چادر کے اندر سے ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کے لیے  ہاتھ کو باہر نکال کر ہاتھ اٹھانےکاحکم ہے۔

 (۳)  عورت اپنے سینے پر ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔

 (۴)  عورت رکوع میں معمولی سا جھکے گی، جب کہ مرد کے  لیے اچھی طرح سے جھکنے کا حکم ہے۔

 (5)  عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے وقت انگلیاں ملائے رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے اس وقت انگلیاں کھولنے کا حکم ہے۔

(6)  عورت رکوع میں گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم ہے۔ 

(7)  عورت رکوع میں گھٹنوں کو ذرا خم دے گی، جب کہ مرد کے  لیے گھٹنوں کو خم دینا منع ہے۔ 

(8)  عورت کے  لیے قیام ورکوع میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا بہتر ہے،  جب کہ مرد کے  لیے دونوں ٹخنوں کے درمیان چار انگل کے بقدر فاصلہ رکھنا افضل ہے۔

(9)  عورت رکوع اور سجدے میں سمٹ کر رہے گی، جب کہ مرد کے  لیے ہر عضو کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے۔

(10)  عورت کے  لیے سجدہ میں دونوں قدم کھڑے کرنے کا حکم نہیں ہے؛ بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے گی، جب کہ مرد کے  لیے دونوں پیروں کو کھڑا کر کے انگلیوں کو قبلہ رخ کرنے کا حکم ہے۔

(11)  عورت سجدے میں اپنی کہنیوں کو بچھا کر رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے کہنیوں کو اٹھا کر رکھنے کا حکم ہے۔ 

(12)  عورت تشہد میں ’’تورّک‘‘ کرے گی یعنی دونوں پیر دائیں جانب نکال کر بیٹھے گی،جب کہ مرد کے  لیے دایاں پیر کھڑا کر کے بائیں پیر پر بیٹھنا مسنون ہے۔ 

 (13)  عورت تشہد کے وقت اپنی انگلیاں ملاکر رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے انگلیاں اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے۔ 

(14)  اگر جماعت میں کوئی بات پیش آئے توعورت الٹے ہاتھ سے تالی بجاکر متوجہ کرے گی، جب کہ مرد کے  لیے ایسی صورت میں بآواز بلند تسبیح وتکبیر کاحکم ہے۔

"عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلَ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا".

(المعجم الکبیر للطبرانی: ج9ص144رقم17497، مجمع الزوائد: ج9 ص624 رقم الحدیث1605، البدر المنير لابن الملقن:ج3ص463)

ترجمہ:" حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً؛ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاَةِ ؟ قَالَ : حَذْوَ ثَدْيَيْهَا".

(باب في المرأة إذَا افْتَتَحَتِ الصَّلاَةَ ، إلَى أَيْنَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا، جلد 1 ص:270)

ترجمہ: "حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟فرمایا : اپنے سینے تک۔"

مصفب ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ زَيْتُونَ ، قَالَ: رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ".

(باب في المرأة إذا افتتحت الصلاة إلي أین ترفع یدیها؟، جلد2 ص:421)

ترجمہ: "عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتیں۔"

فتح القدیر میں ہے:

"المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح؛ لأنه أسترلها".

(فتح القدير لابن الہمام: ج1ص246)

مستخلص الحقائق میں ہے:

"وَ الْمَرْاَة تَضَعُ [یَدَیْها] عَلٰی صَدْرِها بِالْاِتِّفَاقِ".

(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)

فتح العنایۃ میں ہے:

"وَ الْمَرْاَةُ تَضَعُ [یَدَیْها] عَلٰی صَدْرِها اِتِّفَاقًا؛ لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِها عَلَی السَّتْرِ".

(فتح باب العنایة: ج1 ص243 سنن الصلاة)

السعایۃ میں ہے:

"وَاَمَّا فِي حَقِّ النِّسَاءِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ السُّنَّةَ لَهُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِأَنَّهَا أَسْتَرُ لَهَا".

(السعایة ج 2ص156)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن عطاء قال: تجتمع المراة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها وتجتمع ما استطاعت".

(مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983)

ترجمہ:" حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔"

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والمرأة تنحني في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعاً وتنحني رکبتيها ولاتجافي عضدتيها".

(الفتاویٰ الهندیة: ج1ص74)

ابو داود شریف میں ہے:

"عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ".

(مراسیل أبي داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیهقي: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَة)

ترجمہ :" حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں،  آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو؛  کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔"

"عَنْ عَبْدِاللّٰه بْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله علیه وسلم: إِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلٰی فَخِذِهَا الْاُخْریٰ، فَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذِهَاکَأَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَها، فَإِنَّ اللّٰهَ یَنْظُرُ إِلَیْها وَ یَقُوْلُ: یَامَلَائِکَتِيْ أُشْهِدُکُمْ أَنِّيْ قَدْغَفَرْتُ لَها".

(الکامل لابن عدي ج 2ص501، رقم الترجمة 399 ،السنن الکبری للبیهقي ج2 ص223 باب ما یستحب للمرأة الخ،جامع الأحادیث للسیوطي ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)

ترجمہ: "حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔"

سنن الکبری میں ہے:

"عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: ... کَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَّتَجَافُوْا فِيْ سُجُوْدِهِمْ وَ یَأْمُرُالنِّسَاءَ أَنْ یَّتَخَفَّضْنَ".

(السنن الکبریٰ للبیهقي: ج 2ص222/223 باب ما یستحب للمرأة... الخ)

ترجمہ:" صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔"

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن الحسن وقتادة قالا: إذا سجدت المرأة؛ فإنها تنضم ما استطاعت ولاتتجافي لكي لاترفع عجيزتها".

(باب تکبیرة المرأة بیدیها وقیام المرأة ورکوعها وسجودها، جلد 3 ص:49)

ترجمہ:" حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے؛ تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو۔"

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:

"عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ".

(مصنف ابن أبي شیبة: رقم الحديث 2704)

ترجمہ:" حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے، جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔"

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن عطاء قال: ... إذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت".

(مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983)

ترجمہ:" حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے۔"

سنن الکبری میں ہے:

"عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: ... وَکَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِي التَّشَهُّدِ وَ یَأْمُرُالنِّسَاءَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ".

(السنن الکبری للبیهقي ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمرأة ... الخ، التبویب الموضوعي للأحادیث ص2639 )

ترجمہ:" صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔"

جامع المسانید میں ہے:

"عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ".

(جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی ج1ص400، مسند أبي حنیفة روایة الحصكفي: رقم الحديث 114)

ترجمہ:" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: پہلے توچہار زانوں ہو بیٹھتی تھیں، پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں۔"

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه اَنَّه سُئِلَ عَنْ صَلاة الْمَرْأةِ فَقَالَ: تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ".

(ج 2ص505، المرأة کیف تکون في سجودها، رقم الحدیث2794)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔"

پورے  دورِصحابہ  کے بعد  تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ آتاہے ،اس زمانہ میں بھی  مکہ مکرمہ میں حضرت مجاہد بصرہ میں ،اور کوفہ میں امام ابراہیم نخعیؒ برملا یہی فتوی دیتے رہے کہ عورت کانماز میں بیٹھنا اور سجدہ کرنا مرد  کی طرح نہیں  ہے ۔تابعین اورتبع تابعین کے زمانے میں ایک آواز بھی اس کے خلاف نہیں اٹھی اور حدیثِ  پاک کی کسی بھی کتاب میں کسی تابعی یا تبع تابعین کا فتوی بھی ایسا نظرسے نہیں گزرا جس نے کسی عورت کو مجبور کیا ہو کہ وہ مردوں کی طرح نماز پڑھے ،یہی وہ زمانہ ہے جس میں چاروں اماموں نے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقوں کو فقہ اسلامی کی شکل میں مرتب اور مدون فرمایا ۔

الغرض عورتوں کی نماز کا یہ طریقہ رسولِ  اقدس ﷺکے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک امت میں متفق علیہ اور عملاًمتواتر ہے اور جوعمل متواتر ہو ،اس میں کسی خاص حدیث کی سند کی بحث نہیں رہتی؛ کیوں کہ  تواتر خود قوی ترین دلیل ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں