بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد اور عورت کی نماز میں فرق


سوال

 آج کل سوشل میڈیا پر یہ بات بہت پھیلائی جا رہی ہے کہ عورتوں اور مردوں کی نماز کا طریقہ ایک جیسا ہے اور کہا جاتا ہے کہ احادیث میں بھی ایک ہی طریقہ بتایا گیا ہے جو مردوں اور عورتوں کی الگ نماز والی احادیث ہیں وہ ضعیف ہیں اس بارے میں آگاہ فرمائیں اور میں عمان میں رہتی ہوں یہاں خواتین اور مرد دونوں ہی ایک ہی طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں اور سینے پر ہاتھ بھی نہین باندھے جاتے اس ضمن میں بھی وضاحت فرمائیں

جواب

 خواتین کی نماز کا طریقہ مردوں کے طریقہ سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے، اور چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمھم اللہ اس پر متفق ہیں۔ 

مرد وعورت کی نماز میں فرق کی بنیاد عورت کی نسوانیت، جسمانی ساخت اور پردہ ہے،  جہاں طہارت ، روزہ حج، ودیگر مختلف شرعی احکام میں ان امور کا پاس ولحاظ پایا جاتا ہے، تو وہ یہاں  بھی  ملحوظ ہیں حضراتِ فقہاء رحمہم اللہ  نے احادیثِ شریفہ اور آثار ِصحابہ  وغیرہ کوسامنے رکھ کر عورت اورمرد کی نماز کی کیفیت میں  جو فرق بیان  کیے ہیں ان کا  خلاصہ درج ذیل ہے:

(۱)  عورت تکبیر تحریمہ میں صرف کندھوں اور سینوں تک ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کو کانوں کی لو تک ہاتھ اُٹھانے کا حکم ہے۔

 (۲)  عور ت دوپٹہ اور چادر کے اندر سے ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کے لیے  ہاتھ کو باہر نکال کر ہاتھ اٹھانےکاحکم ہے۔

 (۳)  عورت اپنے سینے پر ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔

 (۴)  عورت رکوع میں معمولی سا جھکے گی، جب کہ مرد کے  لیے اچھی طرح سے جھکنے کا حکم ہے۔

 (۵)  عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے وقت انگلیاں ملائے رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے اس وقت انگلیاں کھولنے کا حکم ہے۔

(۶)  عورت رکوع میں گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم ہے۔ 

(۷)  عورت رکوع میں گھٹنوں کو ذرا خم دے گی، جب کہ مرد کے  لیے گھٹنوں کو خم دینا منع ہے۔ 

(۸)  عورت کے  لیے قیام ورکوع میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا بہتر ہے،  جب کہ مرد کے  لیے دونوں ٹخنوں کے درمیان چار انگل کے بقدر فاصلہ رکھنا افضل ہے۔

(۹)  عورت رکوع اور سجدے میں سمٹ کر رہے گی، جب کہ مرد کے  لیے ہر عضو کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے۔

(۱۰)  عورت کے  لیے سجدہ میں دونوں قدم کھڑے کرنے کا حکم نہیں ہے؛ بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے گی، جب کہ مرد کے  لیے دونوں پیروں کو کھڑا کر کے انگلیوں کو قبلہ رخ کرنے کا حکم ہے۔

(۱۱)  عورت سجدے میں اپنی کہنیوں کو بچھا کر رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے کہنیوں کو اٹھا کر رکھنے کا حکم ہے۔ 

(۱۲)  عورت تشہد میں ’’تورّک‘‘ کرے گی یعنی دونوں پیر دائیں جانب نکال کر بیٹھے گی،جب کہ مرد کے  لیے دایاں پیر کھڑا کر کے بائیں پیر پر بیٹھنا مسنون ہے۔ 

 (۱۳)  عورت تشہد کے وقت اپنی انگلیاں ملاکر رکھے گی، جب کہ مرد کے  لیے انگلیاں اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے۔ 

(۱۴)  اگر جماعت میں کوئی بات پیش آئے توعورت الٹے ہاتھ سے تالی بجاکر متوجہ کرے گی، جب کہ مرد کے  لیے ایسی صورت میں بآواز بلند تسبیح وتکبیر کاحکم ہے۔

 پورے  دورِصحابہ  کے بعد  تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ آتاہے ،اس زمانہ میں بھی  مکہ مکرمہ میں حضرت مجاہد بصرہ میں ،اور کوفہ میں امام ابراہیم نخعیؒ برملا یہی فتوی دیتے رہے کہ عورت کانماز میں بیٹھنا اور سجدہ کرنا مرد  کی طرح نہیں  ہے ۔تابعین اورتبع تابعین کے زمانے میں ایک آواز بھی اس کے خلاف نہیں اٹھی اور حدیثِ  پاک کی کسی بھی کتاب میں کسی تابعی یا تبع تابعین کا فتوی بھی ایسا نظرسے نہیں گزرا جس نے کسی عورت کو مجبور کیا ہو کہ وہ مردوں کی طرح نماز پڑھے ،یہی وہ زمانہ ہے جس میں چاروں اماموں نے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقوں کو فقہ اسلامی کی شکل میں مرتب اور مدون فرمایا ۔

الغرض عورتوں کی نماز کا یہ طریقہ رسولِ  اقدس ﷺکے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک امت میں متفق علیہ اور عملاًمتواتر ہے اور جوعمل متواتر ہو ،اس میں کسی خاص حدیث کی سند کی بحث نہیں رہتی؛ کیوں کہ  تواتر خود قوی ترین دلیل ہے۔

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن وائل بن حجر قال: جئت النبي صلى الله عليه وسلم......فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا وائل بن حجر، إذا صليت ‌فاجعل ‌يديك ‌حذاء أذنيك، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها»."

(باب الواو جلد ۲۲ ص: ۱۹ ط: مکتبة ابن تیمیة)

ترجمہ:" حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔"

مصنف ابن بی شیبہ میں ہے:

"حدثنا هشيم، قال: أنا شيخ لنا ، قال: سمعت عطاء، سئل عن المرأة: ‌كيف ‌ترفع ‌يديها في الصلاة؟ قال: «حذو ثدييها»."

(باب فی المرأۃ اذا افتحت الصلوۃ ،إلی أین ترفع یدیها جلد ۱ص: ۲۱۶ ط: دارالتاج ۔ لبنان)

ترجمہ: "حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟فرمایا : اپنے سینے تک۔"

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن عطاء قال: تجتمع المرأة إذا ركعت ‌ترفع ‌يديها ‌إلى ‌بطنها، وتجتمع ما استطاعت."

(باب تکبیر المرأۃ بیدیها و قیام المرأۃ و رکوعها و سجودها جلد۳ ص: ۱۳۷ ط: المجلس العلمي الهند)

مراسیل ابو داؤد میں ہے:

"عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: «‌إذا ‌سجدتما ‌فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل»."

(جامع الصلوۃ ص: ۱۱۷ ط: مؤسسةالرسالة)

ترجمہ :" حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں،  آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو؛  کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔"

سنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها."

(باب مایستحب للمرأۃ من ترک التجافي فی الرکوع و السجود جلد ۲ ص: ۳۱۵ ط: دارالکتب العلمیة)

ترجمہ: "حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔"

فتح القدیر میں ہے:

"(والمرأة ترفع يديها حذاء منكبيها) وهو الصحيح ‌لأنه ‌أستر ‌لها."

(کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ص: ۲۸۳ ط: دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمرأة تنحني في الركوع يسيرا ‌ولا ‌تعتمد ‌ولا ‌تفرج أصابعها ولكن تضم يديها وتضع على ركبتيها وضعا وتحني ركبتيها ولا تجافي عضديها."

(کتاب الصلوۃ ، الفصل الثالث فی سنن الوضوء جلد ۱ ص: ۷۴ ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما المرأة فينبغي أن تفترش ذراعيها وتنخفض ولا تنتصب كانتصاب الرجل وتلزق بطنها بفخذيها لأن ذلك أستر لها."

(کتاب الصلوۃ ، فصل فی سنن حکم التکبیر ایام التشریق جلد ۱ص: ۲۱۰ ط: دارالکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"(فإن كانت امرأة جلست على أليتها اليسرى وأخرجت رجليها من الجانب الأيمن) لأنه أستر لها."

(کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ص: ۳۱۲ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402101433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں