مرد اور عورت کی نماز میں کیا کوئی فرق ہے؟ صحیح مسلم یا صحیح بخاری سے ہونا چاہیے، اگر بخاری ومسلم میں کوئی فرق نہیں ہے تو بتادیجیے۔
واضح رہے کہ احادیث کا ذخیرہ صرف صحیح بخاری ومسلم نہیں ہے بلکہ صحاح ستہ، سنن اور حدیث کی دیگر کتابوں میں بھی احادیث کا ذخیرہ ہے، نیز صرف صحیح احادیث بھی بخاری ومسلم میں منحصر نہیں ،بلکہ دیگر کتب حدیث میں بھی صحیح احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، لہذا فقہاء کرام نے ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے مرد وعورت کی نماز میں فرق کو بیان کیا ہے۔
چنانچہ عمدۃ الفقہ میں ہے:
"عورتیں بھی مردوں کی طرح نماز پڑھیں صرف چند مقامات میں ان کو مردوں کے خلاف کرنا چاہیے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:۔
(1) عورتوں کو قیام میں دونوں پاؤں ملے ہوئے رکھنے چاہئیں یعنی ان میں فاصلہ نہ رکھے اسی طرح رکوع وسجدہ میں بھی ٹخنے ملائے۔
(2) عورتوں کو خواہ سردی وغیرہ کا عذر ہو یا نہ ہو ہرحال میں چادر یا دوپٹہ وغیرہ کے اندر ہی سے ہاتھ اٹھانے چاہئیں باہر نہیں نکالنے چاہئیں۔
(3) عورتوں کو صرف اپنے کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔
(4) تکبیر تحریمہ کے بعد سینہ پر پستان کے نیچے ہاتھ رکھنے چاہئیں۔
(5) عورتوں کو داہنی ہتھیلی بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ دینا چاہئیے، حلقہ بنانا اور بائیں کلائی کو پکڑنا نہ چاہئیے۔
(6) رکوع میں زیادہ جھکنا نہیں چاہیے بلکہ صرف اس قدر جھکیں جس میں ان کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔
(7) رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بغیر کشادہ کئے ہوئے بلکہ ملا کر رکھنی چاہئیں۔
(8) رکوع میں اپنے ہاتھوں پر سہارا نہ دے۔
(9) رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے ان کو پکڑے نہیں۔
(10) رکوع میں اپنے گھٹنوں کو جھکائے رکھے۔
(11) رکوع میں اپنی کہنیاں اپنے پہلؤوں سے ملی ہوئی رکھنی چاہئیں یعنی سمٹی ہوئی رہیں۔
(12) سجدہ میں کہنیاں زمین پر بچھی ہوئی رکھنی چاہئیں۔
(13) سجدہ میں دونوں پیر انگلیوں کے بل کھڑے نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ دونوں پیر داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے اور خوب سمٹ کر اور دب کر سجدہ کرے۔
(14) سجدہ میں پیٹ رانوں سے ملا ہوا ہونا چاہیے یعنی پیٹ کو رانوں پر بچھادے۔
(15) بازو پہلو سے ملے ہوئے ہوں غرضیکہ سجدہ میں بھی سمٹے ہوئے رہیں۔
(16) التحیات میں بیٹھتے وقت مردوں کے برخلاف دونوں پیر داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھنا چاہیے یعنی سرین زمین پر رہے پیر پر نہ رکھے۔
(17) التحیات میں ہاتھوں کی انگلیاں لی ہوئی رکھے۔"
(نماز کے اندر عورتوں کے مخصوص مسائل، ج:2، ص:114، 115، ط: زوار اکیڈمی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100665
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن