بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے ستر کا بیان / کیا ستر کا کھلنا گناہ ہے؟


سوال

مردکے سترسے متعلق شرعی احکامات کیاہیں؟ کیاسترکاننگاہوناگناہِ  کبیرہ ہے ؟

جواب

ستر  بدن کے اس  حصے کے  چھپانے کو کہا جاتاہے جس کا چھپانا نماز میں  ضروری ہے، اور اس حصے کے اعضاء میں سے کسی عضو کے چوتھائی حصے کے برابر  بھی اگر کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو اس حالت میں نماز نہیں ہوتی۔ مرد کا ستر ناف  کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں،اس حصے کا چھپانافرض ہے،اس حصے کا بلا ضرورت کھلے رہنا سخت گناہ ہے۔

نیزکسی کے سامنے اس حصہ بدن کو بلاضرورتِ شرعیہ کھولنابھی جائز نہیں ، بلکہ حرام ہے۔ اور کسی مرد کے لیے دوسرے مرد کے اس حصہ ستر کو  دیکھناجائز نہیں ۔ ہاں علاج معالجہ کے لیے اگر شدید ضرورت ہو تو بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت ڈاکٹر/ طبیب کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت ہے، لیکن ڈاکٹر/ طبیب کے لیے حکم ہے کہ وہ اس وقت نگاہوں کو پست رکھے اور صرف بقدرِ ضرورت حصہ کھولے اور جیسے ہی ضرورت پوری ہو، اس کے بعد نہ دیکھے۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن الحسن مرسلًا قال: بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله الناظر والمنظور إليه".

(الفصل الثالث، ج:2، ص: 936)

ترجمہ: حضرت حسن سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھنے والے اور جسے دیکھا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

 حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے، کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے۔  (مشکاۃ ص:268،قدیمی)

"مجمع الانہر" میں ہے:

''( و ) من ( الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل ) أي إلى ما سوى العورة ( إن أمنت الشهوة ) وذلك؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة، وإن كانت في قلبها شهوة أو في أكبر رأيها أنها تشتهي أو شكت في ذلك يستحب لها أن تغض بصرها، ولو كان الرجل هو الناظر إلى ما يجوز له النظر منها كالوجه والكف لا ينظر إليه حتماً مع الخوف''.

وفیه أیضاً:

"وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليستب عورة."

(4/200،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں