میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی 3.8.2020کو کی تھی ،میری بہو تقریباڈیڑھ سال رہنے کے بعد مورخہ14.1.22کو اپنے میکے چلی گئی کہ میرا ماموں بیمارہے میں ،اتوار والے دن تین بجے تک واپس آجاؤں گی ،واپس آنے کے بجائے اس نے میرے بیٹے پر نامردی کا الزام لگا دیا جس پر معززین علاقہ نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے نامردی کے ٹیسٹ کروا لو ،میں نے ان کے کہنے پر چغتائی لیب لاہور سے ٹیسٹ کروائے جوکہ میرے بیٹے کہ حق میں ہیں اور معززین نے بھی لڑکی کے والدین کو بتا دیا ہے کہ لڑکی کا الزام جھوٹا ہے ،اس کے باوجود وہ لڑکی کو واپس نہیں بھیج رہے اور عدالت میں خلع لینے کی دھمکی دے رہے ہیں اور بدقسمتی سے عدالتیں یک طرفہ طور پر خاوند کی مرضی کےبغیرخلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہیں ،حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خاوند کی مرضی کے بغیر خلع کو غیر اسلامی قرار دیا ہوا ہے ۔
کیا اس لڑکی کا دوبارہ نکاح یک طرفہ خلع کی بنیاد پر کسی دوسرے آدمی سے ہو سکتا ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃًسائل کا بیان درست ہے کہ اس کا بیٹا نامرد نہیں ہے ، اور بیوی کا الزام غلط ہے ، تو اس صورت میں اگر لڑکی بذریعہ عدالت یکطرفہ خلع کی ڈگری حاصل کرتی ہے، اور شوہر اس پر راضی نہ ہوتوعدالت کی جانب سے جاری کردہ ڈگری کی بنیاد پر باہمی نکاح ختم نہیں ہوگا، بلکہ نکاح بدستور برقرر رہے گا اور اس ڈگری کی بنیاد پر عورت کے لیے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول."
(كتاب الطلاق، باب الخلع، 3/ 441 ، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطلاق، 3/ 145، ط:دار الكتب العلمية)
مبسوط سرخسي میں ہے:
"و نكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان."
(کتاب المبسوط،الجزءالعاشر،ج: 10،ص:،163،ط:دارالفکر،بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100268
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن