بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے بوسکی کپڑا پہننے کا حکم


سوال

بوسکی کے کپڑے پہن سکتے ہیں کہ نہیں؟ ہمارے ہاں ایک درزی کا کہنا ہے کہ اس میں 100 فیصد ریشم ہوتا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چائنا والے ریشم کے کیڑوں کو پالتے ہیں اور اس سے ریشم تیار کرتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ ہر ایسا کپڑا جس کا تانا بانا دونوں ریشم کے ہوں یا بانا ریشم کا ہو یا تانا بانا دونوں میں ریشم شامل ہو اور مجموعی طور پر ریشم غالب ہو وہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، بصورتِ دیگر تمام کپڑے مردوں کے لیے استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔

لہذا اگر واقعۃً بوسکی کپڑا اصلی ریشم کا بنا ہوا ہو، تو وہ مرد کے لیے استعمال کرنا حرام ہوگا اور عورت کے لیے جائز ہوگا،اور اگر بوسکی مصنوعی ریشم کا بنا ہوا ہو،تو اس کا استعمال مرد کے لیے جائز ہے۔عام طور پر بازار میں جو بوسکی ملتی ہے،وہ  مصنوعی ریشم کا بنا ہوا ہے،اس لیے مرد کے لیے ایسے کپڑے کا استعمال جائز ہے،اور اصلی ریشم کے بنے   ہوئے کپڑے کی قیمت بہت زیادہ ہےاور مصنوعی ریشم کے بنے ہوئے کپڑے کی قیمت کم ہوتی ہے،لہذا درزی کی بات درست نہیں ہے۔ 

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا ابن نفيل حدثنا زهير حدثنا خصيف عن عكرمة عن ابن عباس قال: إنما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الثوب المصمت من الحرير، فأما العلم من الحرير وسدى الثوب فلا بأس به."

( كتاب اللباس، باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، ج:4، ص:87 رقم الحديث: 4055، ط:المطبعة الأنصارية)

عون المعبود میں ہے:

"وقال الطيبي : هو الثوب الذي يكون سداه ولحمته من الحرير لا شيء غيره ، ومفاد العبارتين واحد ( وسدى الثوب ) : بفتح السين والدال بوزن الحصى ، ويقال ستى بمثناة من فوق بدل الدال لغتان بمعنى واحد وهو [ ص:82 ] خلاف اللحمة وهي التي تنسج من العرض وذاك من الطول ، والحاصل أنه إذا كان السدى من الحرير واللحمة من غيره كالقطن والصوف ( فلا بأس )؛ لأن تمام الثوب لا يكون إلا بلحمته .  والحديث يدل على جواز لبس ما خالطه الحرير إذا كان غير الحرير الأغلب وهو مذهب الجمهور."

( كتاب اللباس، باب الرخصة في العلم وخيط الحرير، ج:11، ص:70، ط:دار الكتب العلمية)

التمهيد في الموطأ من المعاني و الأسانيدمیں ہے:

" لا يختلفون في الثوب المصمت الحرير الصافي الذي لا يخالطه غيره أنه لايحل للرجال لباسه." (ج:14، ص:240)

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے:

" لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز." (ص: 49)

تنویر الأبصار مع الدر المختارمیں ہے:

"و يحل ( لبس ما سداه ابريسم و لحمته غيره) ككتان و قطن و خز؛ لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي.

و في الشامية: ( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول."

( كتاب الحظر و الإياحة، ج:6، ص:356، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں