بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے سونا پہننا کیوں ہے؟


سوال

مرد کو سونا پہننا کیوں حرام ہے؟

 

جواب

مرد کے لیے سونا استعمال کرنے کی  ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں اس  سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں   ممانعت ہے تو     مؤمن کی شان  یہی ہے کہ وہ دین کے اَحکام کو حکمِ خداوندی سمجھ کر تسلیم کرلے، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور علت سمجھ میں آئے یا نہیں، یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بلاشبہہ شریعت کے اَحکام مختلف حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن شریعت کے احکام پر عمل کرنا حکمتوں یا مصلحتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، لہذا احکام پر عمل انہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھ کر کرنا چاہیے ، حکمتوں اور مصلحتوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔

ایک حدیث میں آتا ہےکہ رسول اللہ ﷺ  ایک دن اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے ایک دستِ مبارک میں ریشم اور  دوسرے میں سونا تھا،   آپ ﷺ نے فرمایا:یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہیں۔

"عَنْ اَبِي اَفْلَحَ الْهَمْدَانِيِّ رضی الله عنه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زُرَيْرٍ رضی الله عنه يَعْنِي الْغَافِقِيَّ اَنَّهُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ اَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه يَقُولُ إِنَّ نَبِيَّ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ وَاَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَی ذُکُورِ اُمَّتِی."

(سنن ابي داود، السنن، 4: 50، رقم: 4057، دار الفکر)

تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

اس کی حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ  سونے کے ذریعہ آرائش کا رواج دنیا طلبی میں انہماک تک پہنچانے والا ہے اور مردوں کے لیے یہ   چیز مذموم ہے، اس کے برخلاف عورتوں میں زینت مقصود ہے؛ تاکہ ان کے شوہر ان کی طرف رغبت کریں، اسی لیے شریعت نے ان کے حق میں رخصت سے کام لیا۔ (حجة اللہ البالغہ )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة) مطلقًا سواء كان في حرب أو غيره". 

الفتاوى الهندية (5/ 331):

"وما يكره للرجال لبسه يكره للغلمان والصبيان؛ لأن النص حرم الذهب والحرير على ذكور أمته بلا قيد البلوغ والحرية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں