بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے ویسکٹومی (vasectomy) یا نس بندی کرانے کا حکم


سوال

 میرے ایک دوست نے ایک ڈاکٹر سے اپنی زوجہ کے بچے بند کروانے کا مشورہ کیا،تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ ان کے  بچے بند نہ کروائیں، یہ ان کی  صحت  کے لیے مضر ہے، آپ اپنے ہی مردانہ  سپرم ختم کروا لیں، اس سے صرف آپ کے جسم سے بچے پیدا کرنے والے  جراثیم ختم ہو جائیں گے، باقی آپ کی جماع کی طاقت برقرار  رہے  گی،  کیا  ایسا کرنا شرعی طور پر جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مرد یا عورت کا ایسا آپریشن کروانا جس سے توالد اور تناسل (بچہ پیدا کرنے)کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے، شرعاً ناجائز  اور منشاِ شریعت کے خلاف ہے اور نظام ِ خداوندی میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے اپنے مردانہ قابلِ تولید جراثیم ختم کروانا شرعاًجائز نہیں ہے،البتہ اگر کسی شرعی عذر کی بنا پرمانعِ حمل کے عارضی تدابیر اختیار کیے جائیں  تو ایسا کرنا جائز ہے۔

"شرح مختصرالطحاوي للجصاص "میں ہے:

"قال: (وكره أبو حنيفة رحمه الله كسب الخصيان، وملكهم، واستخدامهم).

لأنهم لولا رغبة الناس فيهم لما أخصوا، فكان في اقتنائهم معونة على إخصائهم، وذلك مثلة ومحرم، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "لاإخصاء في الإسلام."

(کتاب الکراھیۃ،ج:8ِ،ص:561،ط:دار البشائر الاسلامیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ‌خصاء ‌الآدمي ‌فحرام قيل والفرس وقيدوه بالمنفعة وإلا ‌فحرام."

(كتاب الحظر والاباحة،ج:6،ص:388،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں