اگر جسم پر کپڑا هو تو کیا ایک مرد دوسرے مرد کے گھٹنے سے اوپر والے حصہ یعنی ران وغیرہ کو دبا سکتا هے؟
صورتِ مسئولہ میں عذر اور ضرورت کے وقت، اور فتنہ کا خطرہ نہ ہونے کی صورت میں مرد دوسرے مرد کی یا بچے اپنے والد کی ران کپڑے کے اوپر سے دباسکتے ہیں۔ لیکن بلاضرورت جسمانی خدمت میں ران دبوانے سے احتراز کرنا چاہیے۔
اور اگر فتنے کا خطرہ ہو، یا ران پر کوئی کپڑا نہ ہو، یا ران دبانے والا امرد (بے ریش لڑکا ہو) تو اس صورت میں ران دبانا یا دبوانا جائز نہیں ہوگا۔
الفتاوى الهندية (5 / 328):
"قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - سَمِعْتُ الشَّيْخَ الْإِمَامَ أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدًا - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يَقُولُ: لَا بَأْسَ بِأَنْ يَغْمِزَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ إلَى السَّاقِ وَيُكْرَهُ أَنْ يَغْمِزَ الْفَخْذَ وَيَمَسَّهُ وَرَاءَ الثَّوْبِ وَيَقُولُ: يَغْمِزُ الرَّجُلُ رِجْلَ وَالِدَيْهِ، وَلَايَغْمِزُ فَخْذَ وَالِدَيْهِ. وَالْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يُبِيحُ أَنْ يَغْمِزَ الْفَخْذَ وَيَمَسَّهَا وَرَاءَ الثَّوْبِ وَغَيْرَهَا، كَذَا فِي الْغَرَائِبِ."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200753
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن