بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کا ایک سے زائد نگینے والی انگوٹھی بہن کر یا عورتوں کا زیورات پہن کر نماز پڑھنا


سوال

اگر کوئی مرد ایک سے زائد نگینے والی انگوٹھی یا مقدار سے زائد وزن کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟ نیز عورتیں جو زیور پہن کر نماز پڑھتی ہیں ان کاحکم کیا ہوگا؟

جواب

 مردوں کے لیے صرف ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے،  اور ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm)  ہوتا ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

لہذا مرد کے لیے مذکورہ وزن سے زائد   انگوٹھی پہننا جائز نہیں، ایک سے زائد نگینے والی انگوٹھی میں چاندی کا وزن ایک مثقال سے زائد نہ ہو تو جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ تاہم اگر اس نے  مذکورہ انگوٹھیاں پہن کر نماز پڑھی تو کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی، عورت کے لیے زیور پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :

سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی بنی  انگوٹھی پہننا

(الدر المختار مع  رد المحتار: 6/ 358):

"(و لايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... و لايزيده على مثقال.

 (قوله: و لايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب»، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولاتتمه مثقالاً». " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس۔ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولا يزيده على مثقال)، وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولاتتممه مثقالاً»".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں