بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے اپنے لباس میں چار انگلیوں کے بقدر ریشم کا استعمال جائز ہونے کا کیا مطلب ہے؟


سوال

 کپڑے میں چار انگلیوں کے بقدر ریشم کا استعمال جائز ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟

صرف ایک جگہ میں اتنے ریشم کے استعمال کی اجازت ہے یا پورے کپڑے میں اس شرط کے ساتھ کہ عرض میں چار انگلیوں سے تجاوز نہ کرے؟ جو بھی مطلب ہے وضاحت فرما دیں تاکہ تشفی ہوجائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں چار انگشت سے مراد کپڑے کے عرض میں چار انگشت کی چوڑائی سے زائد مقدار میں  ریشم کا استعمال نہ کیا گیا ہو، یا ریشمی بیل ٹانکی نہ گئی ہو،  البتہ  ایسا کپڑا جس میں  متفرق  جگہوں ریشم کے بیل بوٹے بنائے گئے ہوں، تو  مرد کے لیے اسے زیب تن کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ بیل بیٹوں کے درمیان بیل بیٹوں کی مقدار سے زیادہ فاصلہ ہو، اور دیکھنے والے کو ریشمی لباس معلوم نہ ہوتا ہو، بصورت دیگر مرد کے لیے پہننا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"دولہا کو گوٹہ لچکا لگا کر پہننا

سوال: نوشہ کو خسرال کی طرف سے جوڑا ملتا ہے اس میں گوٹہ لچکا بھی لگا ہوتا ہے اس کو پہننا درست ہے یا نہیں؟

 جواب: اگر گوٹہ لچکا چار انگشت ہے تو یہ لباس مرد کو درست ہے اگر زیادہ ہے تو نا جائز، گوٹہ لچکا ٹھپہ پہننا مرد کو مطلقاً چار انگشت تک جائز ہے نکاح ہو یا بغیر نکاح - فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔"

مرد کا گوٹے کناری لگا ہوا کپڑا پہننا

"سوال: گوٹہ کناری جس کو عورت کپڑوں پر لگاتی ہیں اس کا استعمال مردوں کو بھی بقدر چار انگشت یا دو انگشت کے کپڑوں پر کے درست ہے یا نہیں؟ اگر اس کا کپڑا بنا ہوا پہنے تو جائز ہے یا نہیں؟

جواب: گوٹہ کناری چار انگشت تک مردوں کو جائز ہے، خواہ کپڑے کیساتھ بنا ہو، خواہ ٹانک دیا ہو، خواہ بدون سینے کے کپڑے تک متصل کر دیا ہو، اس میں وزن کا اعتبار نہیں بلکہ مساحت کا اعتبار ہے چار انگشت درست اور زائد ممنوع ہے، خالص چاندی کا پترہ بھی یہی حکم رکھتا ہے ۔ کذافی کتب الفقہ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔"

( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: ۵۷۲، ط: ادارہ صدائے دیوبند )

احسن الفتاوی میں ہے:

چاندی کے تار والا کپڑا :

"سوال : زری دار کپڑے جن کی بنائی میں چاندی کا تار استعمال ہوا ہو پہننا کیسا ہے ؟

 الجواب باسم ملهم الصواب

عورتوں کے لئے مطلقاً جائز ہے۔ مردوں کے لئے ریشم یا سونے چاندی کے تار سے بنا ہوا یا کڑھائی والا کپڑا اس شرط سے جائز ہے کہ پٹی یا پھول کی چوڑائی چار انگلیوں سے زائد نہ ہو، لمبائی میں کوئی تحدید نہیں، ایسی پٹیاں یا پھول متعدد ہوں تو ان کے جواز میں یہ شرط بھی ہے کہ ان کے درمیان پٹی یا پھول کی چوڑائی سے زیادہ فاصلہ ہو، اگر فاصلہ برابر یا کم ہو کہ دیکھنے میں پورا کپڑا ہی رشیمی یا زری دار نظر آتا ہو تو جائز نہیں۔

قال العلامة التمرتاشى رحمه الله تعالى : يحرم لبس الحرير ولو بحائل علي المذهب أو في الحرب علي الرجل لا المرأة إلا قدر اربع اصابع مضمومة وكذا المنسوج بذهب يحل إذا كان هذا المقدار وإلا لا.

وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالي : وظاهر المذهب عدم جمع المتفرق ولو في عمامة كما يسطه في القنية.

وقال العلامة إبن عابدين رحمه الله تعالي: تحت ( قوله: إلا قدر أربع أصابع إلخ) وهل المراد قدر الأربع أصابع طولا وعرضا بأن لا يزيد طول العلم وعرضه على ذلك او المراد عرضها فقط وان مراد طوله على طولها المتبادر من كلامهم الثاني ويفيده ايضا ما سيأتى فى كلام الشارح عن الحاوى الزاهدي (قوله وظاهر المذهب عدم جمع المتفرق اى الا اذا كان خط منه قرا و خط من غيره بحيث يرى كله قزا فلا يجوز كما سيذكره عن الحاوي ومقتضاه حل الثوب المنقوش بالحرير تطريز او نسيا اذا لم تبلغ كل واحدة من نقوشه اربع اصابع وان زادت بالجمع ما لم ير كله حريرا تأمل. (رد المحتار ص ۲۲۴ ج ۵) والله سبحانه وتعالى اعلم ."

(كتاب الحظر و الإباحة، احکام لباس و زینت، ۸ / ۶۵ - ۶۶، ط: سعید)

العرف الشذي شرح سنن الترمذيمیں ہے:

"[١٧٢٠] قال الحنفية: ... ويجوز الحرير للرجال قدر أربع أصابع، والعبرة لأصابع اللابس ولبس الثوب الذي لحمته وسداه حرير حرام، والذي لحمته غير حرير جائز والعكس غير جائز، ولو كان الحرير مطرزا فكذلك التفصيل الطراز السنجاف والمنسوج (كشيده) إن كان مفرقا وقدرا زائدا على أربعة أصابع فلا يجوز، وإن كان غير مفرق فيحول إلى رأي من يراه بعيدا فإنه لو وجده مفرقا لا يجوز وإلا فيجوز، والنعل المزركش إن كان مفرقا فلا يجوز وإلا فيجوز."

( كتاب اللباس، باب ما جاء في الحرير والذهب للرجال، ٣ / ٢٤٨، ط: دار التراث العربي -بيروت، لبنان)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(يحرم لبس الحرير ولو بحائل) بينه وبين بدنه (على المذهب) الصحيح وعن الإمام إنما يحرم إذا مس الجلد. قال في القنية: وهي رخصة عظيمة في موضع عمت به البلوى (أو في الحرب) فإنه يحرم أيضا عنده. وقالا يحل في الحرب (على الرجل لا المرأة إلا قدر أربع أصابع) كأعلام الثوب

(قوله إلا قدر أربع أصابع إلخ) لما صح عن ابن عباس - رضي الله عنهما - إنما «نهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عن الثوب المصمت من الحرير» فأما العلم وسدى الثوب فلا بأس به والمصمت الخالص، ولخبر مسلم «نهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عن لبس الحرير إلا موضع أصبع أو أصبعين أو ثلاث أو أربع» وهل المراد قدر الأربع أصابع طولا وعرضا بأن لا يزيد طول العلم وعرضه على ذلك أو المراد عرضها فقط، وإن زاد طوله على طولها المتبادر من كلامهم الثاني، ويفيده أيضا ما سيأتي في كلام الشارح عن الحاوي الزاهدي وعلم الثوب رقمه وهو الطراز كما في القاموس والمراد به ما كان من خالص الحرير نسجا أو خياطة، وظاهر كلامهم أنه لا فرق بينه وبين المطرف، وهو ما جعل طرفه مسجفا بالحرير في أنه يتقيد بأربع أصابع، خلافا للشافعية حيث قيدوا المطرز بالأربع أصابع، وبنوا المطرف على العادة الغالبة في كل ناحية، وإن جاوز أربع أصابع فالمراد بالعلم عندنا ما يشملهما، فيدخل فيه السجاف وما يحيط على أطراف الأكمام وما يجعل في طوق الجبة وهو المسمى قبة وكذا العروة والزر."

( كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ٦ / ٣٥١ - ٣٥٢، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں