بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد امام کے پیچھے نامحرم خواتین کی تروایح


سوال

اگر کوئی امام ہو اور اس کے پیچھے نا محرم عورتیں تراویح پڑھنا چاہتی ہوں تو کوئی شکل ہے جس میں تراویح ہو سکے؟

جواب

عورتوں کا گھر سے باہر جاکر مسجد یا کسی بھی دوسری جگہ  اجتماعی تراویح میں شریک ہونا مکروہ ہے، خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہ ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

البتہ اگر اپنے گھر میں ہی تراویح کی جماعت ہورہی ہو اور گھر کا مرد ہی گھر میں  تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں اور صفوں میں درمیان میں پردہ کے ساتھ اتصال ہو ،اگر مرد وعورت کی صف میں اتصال نہ ہو بلکہ دو صف یا اس سے زائد جگہ کا فاصلہ ہو تو  عورتوں  کی اقتدا درست نہیں ہوگی، نیز باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو اس طرح عورتوں کے لیے تراویح کی نماز میں شرکت کرنا  شرعاً درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔  اسی طرح اگر امام تنہا ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی دوسرا مرد نہ ہو اور مقتدی سب  گھر کی عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو اور   امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی  کرے  تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، گھر کی جو خواتین امام کے لیے نامحرم ہوں وہ پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں۔  لیکن  اگر  امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں ، اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون  نہ ہو،  تو ایسی صورت میں  امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثا العجائز والمتفانية (كما تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره......"

(باب الامامۃ،ج1،ص566،ط؛سعید)

الدر المختاروحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقًا. 

 (قوله: يسع صفين) نعت لقوله خلاء، والتقييد بالصفين صرح به في الخلاصة والفيض والمبتغى. وفي الواقعات الحسامية وخزانة الفتاوى: وبه يفتي إسماعيل، فما في الدرر من تقييده الخلاء بما يمكن الاصطفاف فيه غير المفتى به تأمل."

 ( کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ،ج1،ص584،۔585، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں