بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد اور عورت کی نماز میں فرق


سوال

کیا مردوں اور عورتوں کے نماز پڑھنے کے طریقے میں کوئی فرق ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق ستر اور پردے کا ہے، جیساکہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے، لہٰذا عورت کے حق میں مختلف ارکان کی ادائیگی میں ستر (پردے) کا زیادہ خیال رکھا گیاہے تاکہ اس کے نسوانی اعضاء کا اظہار و اعلان نہ ہو۔

 مرد اور عورت کی نماز کے درمیان فرق درج ذیل ہیں:

1-  پہلا فرق تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کے اٹھانے کی ہیئت میں ہے:

جس کی تفصیل یہ ہے کہ مردتکبیر  تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے ،جب کہ خواتین کے لیے تکبیر تحریمہ  کے وقت  سینے تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے۔

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن وائل بن حجر قال: جئت النبي صلى الله عليه وسلم ....  فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا وائل بن حجر، إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك، ‌والمرأة ‌تجعل ‌يديها ‌حذاء ‌ثدييها.»"

(‌‌باب الواو،‌‌أم يحيى بنت عبد الجبار بن وائل بن حجر،19/22،مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

ترجمہ:" حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

 "حدثنا هشيم قال: أنا شيخ لنا قال: ‌سمعت ‌عطاء ‌سئل ‌عن ‌المرأة ‌كيف ‌ترفع ‌يديها ‌في ‌الصلاة؟ ‌قال: ‌حذو (‌ثدييها)."

(كتاب الصلوات،في المرأة إذا افتتحت الصلاة إلى أين ترفع يديها،27/3، ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)

ترجمہ:"حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ :عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟فرمایا : اپنے سینے تک۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: نا إسماعيل بن عياش عن عبد ربه بن زيتون قال: (رأيت) أم (الدرداء) ترفع (يديها) ‌حذو ‌منكبيها ‌حين ‌تفتتح ‌الصلاة."

(كتاب الصلوات،في المرأة إذا افتتحت الصلاة إلى أين ترفع يديها،27/3، ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)

ترجمہ:" عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ:میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتیں۔"

درج بالا روایات میں  عورت کے لیے ہاتھوں کا کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا تذکرہ موجود ہے، لہٰذا عورت تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں،اس فرق کی عقلی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی  ہے، جب کہ  عورت کے حق میں یہی مطلوب ہے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"وأما ‌المرأة ‌ترفع ‌يديها كما يرفع الرجل في رواية الحسن عن أبي حنيفة، وبهذه الرواية أخذ بعض المشايخ، وقال بعضهم: حذاء يديها، قال بعضهم: حذو منكبيها وهو الأصح؛ لأن هذا أستر في حقها، وما يكون أستر لها فهو أولى."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌الفصل الرابع في كيفيتها، 291/1،دار الكتب العلمية، بيروت)

2-  دوسرا فرق قیام میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھا مستحب ہے، اگرچہ فقہاء میں اس حوالے سے اختلاف بھی ہے، تاہم خواتین کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔

 فتح باب العنایہ بشرح النقایہ   میں ہے:

"(والمرأة تضع ‌على ‌صدرها) اتفاقا لأن مبنى حالها على الستر."

(كتاب الصلوة، سنن الصلاة، 243/1، ط: دار الأرقم بن أبي الأرقم)

ترجمہ:"عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیوں کہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے (ستر) پر ہے۔"

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"قال: (ثم يعتمد بيمينه على رسغ يساره تحت سرته) لقوله صلى الله عليه وسلم: ثلاث من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضع اليمين على الشمال تحت السرة..والمرأة تضع يدها ‌على ‌صدرها لأنه أستر لها ويقبض بكفه اليمنى رسغ اليسرى."

 (كتاب لصلوة، ‌‌باب الأفعال في الصلاة، 49/1، ط:دار الكتب العلمية)

تحفۃ الملوك میں ہے:

"كيفية وضع اليدين وإذا كبر وضع يمينه على يساره تحت سرته والمرأة تضع ‌على ‌صدرها ثم يقول سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك."

 (كتاب الصلوة، ‌‌فصل الأركان أولها القيام، ص:69، ط:دار البشائر الإسلامية)

 مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وَ الْمَرْاَة تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها بِالْاِتِّفَاقِ."

 (كتاب الصلوة، ‌‌فصل الأركان أولها القيام، ص:153، ط:دار المطبع)

ترجمہ:" عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔"

3-  تیسرا فرق رکوع کی ہیئت میں ہے کہ مرد رکوع میں اپنے بازو اپنے پہلو سے جدا رکھیں گے جب کہ خواتین اپنے بازؤں کو پہلو سے جدا نہیں کریں گی۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء قال ‌تجتمع المرأة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها، وتجتمع ما استطاعت، فإذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت."

 (‌‌کتاب الصلاۃ،باب تكبير المرأة بيديها وقيام المرأة و ركوعها وسجودها، 408/3، ط:دار التأصيل)

ترجمہ:" حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔"

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والمرأة تنحني في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعاً وتنحني رکبتيها ولاتجافي عضدتيها."

(كتاب الصلوة، الباب الرابع في صفة الصلاة،  الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها، ج:1، ص:74، ط:دار الفكر)

ترجمہ:" عورت رکوع میں کسی قدر جھکے گی،گھٹنوں کو مضبوطی سے نہیں پکڑے گی،اپنی انگلیوں کو کشادہ نہیں کرے گی، البتہ ہاتھوں کو ملا کر اپنے گھٹنوں پر جما کر رکھے گی، گھٹنوں کو قدرے ٹیڑھا کرے گی اور اپنے بازو جسم سے دور نہ رکھے گی۔"

4-  چوتھا فرق سجدہ کرنے کی ہیئت میں ہے، کہ مرد سجدے میں بازو کو پہلو سے جدا رکھیں گے، جب کہ خواتین مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہیں کریں گی، بلکہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائیں گی، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی۔

المراسیل لابی داؤد میں ہے:

"عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: «‌إذا ‌سجدتما ‌فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل."

(‌‌باب من الصلاة،‌‌جامع الصلاة،ص: 117، الرقم:87، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)

ترجمہ :" حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں،  آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو؛  کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔"

السنن الکبری - البیہقی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا جلست المرأة في الصلاة ‌وضعت ‌فخذها ‌على ‌فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود، 315/2، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔"

السنن الکبری - البیہقی میں ہے:

"عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍالْخُدْرِيِّ رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: ... وكان " يأمر الرجال أن يتجافوا في سجودهم، ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود،314/2، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

ترجمہ:" صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔"

المصنف - عبد الرزاق- میں ہے:

"عبد الرزاق، عن معمر، عن الحسن وقتادة قالا: إذا سجدت المرأة، ‌فإنها ‌تنضم ما استطاعت، ولا تتجافى لكي لا ترفع عجيزتها."

(كتاب الصلاة،باب تكبير المرأة بيديها وقيام المرأة و ركوعها وسجودها،407/3، الرقم:5213، ط:دار التأصيل)

ترجمہ:" حضرت حسن بصری رحمہ اللہ  اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے  فرماتے ہیں کہ: جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے؛ تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو۔"

مصنف ابن أبی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: نا جرير، عن ليث، عن مجاهد أنه كان ‌يكره ‌أن ‌يضع ‌الرجل بطنه على فخذيه إذا سجد كما تضع المرأة."

(كتاب الصلوات،‌‌المرأة كيف تكون في سجودها،242/1، الرقم:2780، ط: دار التاج - لبنان/مكتبة الرشد - الرياض)

ترجمہ:" حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے، جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔"

5-پانچواں فرق سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کی ہیئت میں ہے  کہ عورت اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دے۔

السنن الکبری - البیہقی میں ہے: 

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا ‌جلست ‌المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها"

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود،314/2، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔"

مسند ابی حنیفہ میں ہے:

"عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أنه سئل: «كيف كن النساء ‌يصلين ‌على ‌عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ كن يتربعن، ثم أمرن أن يحتفزن»."

 (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی،400/1، مسند أبي حنیفة روایة الحصكفي:کتاب الصلوۃ، رقم الحديث: 37)

ترجمہ:" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: پہلے توچہار زانوں ہو بیٹھتی تھیں، پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: نا أبو عبد الرحمن المقرئ عن سعيد بن (أبي) أيوب عن يزيد بن (أبي) حبيب عن (بكير) (بن) عبد اللَّه بن الأشج عن ابن عباس: أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: ‌تجتمع ‌و (‌تحتفز)."

(كتاب الصلوات،المرأة كيف تكون في سجودها،93/2، الرقم:2804، دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض - السعودية)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔"

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں