بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرض الموت میں اولاد کی موجودگی میں مکمل جائیداد بیوی کو ہبہ کرنا


سوال

ہمارے والد نے تین شادیاں کی تھیں،پہلی بیوی سے ہم پانچ بھائی دو بہنیں ہیں،پہلی اور دوسری والدہ کا انتقال  والد صاحب کی زندگی میں ہوچکا ہے،والد صاحب کی زندگی میں دو بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے جن کی اولاد نہیں ہے اور ایک بہن کا بھی انتقال ہوچکا ہے جو صاحب اولادہے،ہمارے والد نے بستر مرگ پرپوری جائیداد اپنی تیسری بیوی کے نام  ہبہ کردی ہے،اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا کوئی والد اپنی اولاد کی موجود گی میں پوری جائیداد کسی ایک کو ہبہ کرسکتاہے؟ کہ جس سے دوسرے وارث محروم ہوجائیں،ترکہ کی تقسیم مطلوب نہیں ہے،صرف ہبہ سےمتعلق جواب دركارہے۔

جواب

واضح رہے کہ مرض الموت میں  کسی کو کوئی چیز ہبہ (گفٹ) کرنا وصیت کےحکم میں ہوتا ہے،اورشریعت مطہرہ نے ہر وارث کا شرعی حصہ متعین کردیا ہے لہذا  وارث کے لیے وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے ان کی اجازت کےبغیر نافذ نہیں ہوتی ، مذکورہ تفصیل کی رو سے سائل کے والد نے اگر واقعۃً مرض الموت کی حالت میں اپنی پوری جائیداد ایک بیوی کو ہبہ کردی ہے تو یہ ہبہ دیگر ورثاء کی رضامندی کےبغیر شرعاً معتبر نہیں ہے اور مذکورہ جائیداد سائل کے والد کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

سنن الدارمی میں ہے :

"عن عمرو بن خارجة، قال: كنت تحت ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، وهي تقصع بجرتها، ولعابها ينوص بين كتفي، سمعته يقول: «ألا إن الله قد ‌أعطى ‌كل ‌ذي ‌حق حقه، فلا يجوز وصية لوارث"

(باب الوصیة للوارث  ج:4 ص:2063، ط:دارالمغنی)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن انسرضی الله عنهقال :قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من قطع میراث وارثه قطع الله میراثه من الجنة یوم القیامة۔رواه ابن ماجة."

(کتاب الفرائض ج:1 ص: 272 ط: رحمانیه)

مجمع الانہر میں ہے:

"‌والهبة والصدقة من المريض لوارثه نظير الوصية؛ لأنه وصية حكما."

( کتاب الوصایا،ج:2، ص:696، ط: دار احياء التراث العربي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"والهبة والصدقة من المريض لوارثه في هذا ‌نظير ‌الوصية؛ لأنه وصية حكما حتى يعتبر من الثلث."

(کتاب الوصایا، ج:6، ص:182، ط:المطبعة الكبري)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں