بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرض الموت میں وارث کے لیے ہبہ کرنا


سوال

والد صاحب کا انتقال ہوا ،ہم آٹھ بہنیں اور تین بھائی ہیں،والدہ کا انتقال پہلے ہو چکا تھا، ہمارے والد صاحب اچھی خاصی جائیداد  کے مالک تھے ، انہوں نے ہم سب بہنوں کی شادی  اپنی زندگی میں کرادی تھی  چھوٹے موٹے مکانات ہم سب کو دیے تھے، والد صاحب جس مکان میں رہتےتھے وہ اچھی خاصی مالیت کا ہے، مکان کے علاوہ جائیداد، کاروبار نقد  رقوم وغیرہ بھی ہیں ، جو کہ بھائیوں کے ہاتھ میں  اب بھی ہیں، والد صاحب کے وصال کے بعد والد کے مکان میں  دو بھائی رہتے ہیں ،ان میں سے ایک  بھائی کا کہنا ہے کہ والد صاحب نے مرض الموت میں میرے کان میں کہاتھا کہ یہ مکان آپ دونوں بھائیوں کا ہے، جب کہ دیگر ورثاء کو اس بات کا بالکل علم نہیں۔ اور والد صاحب اپنی زندگی کے آخر تک اسی مکان میں ہے والد صاحب کے انتقال کے بعد  جائیداد باقاعدہ  شرعی طور پر  تقسیم نہیں ہوئی ۔

اب یہ معلوم کرنا ہے کہ مذکورہ مکان جو دو بھائیوں کے پاس ہے اس میں  اور دیگر جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ نکلتا ہے یا نہیں؟ والد صاحب کی وہ بات جو بھائی کا مدعا ہے اس کا کیا حکم ہے  ؟

جواب

واضح رہے کہ   مرض الموت میں کسی چیز کا ہبہ(ہدیہ) کرنا وصیت کے حکم میں ہوتا ہے اور وارث کے لیے وصیت دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر شرعاً معتبر نہیں ہوتی،نیز عام ہبہ کی طرح مرض الموت میں کیے گئے ہبہ کےتام اور مکمل ہونے کے لیے بھی   ضروری ہے کہ  ہبہ کی گئی چیزکا مکمل قبضہ اس شخص کو  دے دیا جائے جسے وہ چیز ہبہ کی گئی ہے اگر اسے قبضہ نہیں دیا تو یہ ہبہ ناتمام رہتا ہے اور وہ چیز بدستور اپنےاصل مالک کی ملکیت ہی میں رہتی ہے اور اس کے انتقال ہوجانے کی صورت میں اس کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ بھائی اگر  بالفرض اپنی  اس بات کو گواہوں  ثابت بھی کر دے  کہ والد صاحب نے یہ مکان دو بھائیوں کو ہدیہ کیا تھا  تب بھی یہ مکان والد مرحوم کے ترکہ میں شمار ہو گا اور والد صاحب کی تمام جائیداد کی طرح اس مکان میں بھی بیٹیاں اپنے شرعی حصہ کے بقدر حق دار ہوں گی۔

والد مرحوم کا ترکہ تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ میں سے  مرحوم کی تجیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں پھر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو ترکہ سے اسے ادا کیا جائے ،پھر اگر مرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے اس کے بعد جو مال بچ جائے اس کے 11 حصے کر کے ہر بیٹے کو 2،2 حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

میت---11 

بیٹابیٹا بیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
22211111111

 

یعنی قابل تقسیم ترکہ کا18.18فیصد مرحوم کے ہر بیٹے کو اور9.09فیصد مرحوم کی ہر بیٹی کو ملے گا۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل

(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت

(حاشية رد المحتار،كتاب الهبة5/ 690 ط:سعيد)

حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

(قوله: مريض مديون إلخ) [فروع] وهب في مرضه، ولم يسلم حتى مات بطلت الهبة، لأنه وإن كان وصية حتى اعتبر فيه الثلث فهو هبة حقيقة، فيحتاج إلى القبض

(‌‌كتاب الهبة،‌‌باب الرجوع في الهبة5/ 700،ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

لأن هبة المريض في معنى الوصية حتى تعتبر من الثلث

(کتاب الوصایا،فصل:وأما شرائط الرکن، 7/337 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں