بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرض بڑھ جانے کے خوف سے تیمم کر کے نماز پڑھنے کے بعد گرم پانی میسر ہوجائے تو کیا کیا جائے؟


سوال

 ایک آدمی نے پانی ٹھنڈا ہونے یا مرض کے بڑھ جانے کے ڈر سے تیمم کر کے نماز پڑھی آیا کہ جب گرم پانی میسر ہو گیا تو وہ شخص دوبارہ غسل کر کے نمازیں پڑھے گا یا وہی ایک تیمم کافی ہے کہ اس کے بعد غسل کی ضرورت نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  یہ آدمی  اس حد تک   بیمار تھا   کہ پانی سے غسل  کرنے کے باعث جان جانے، یا کسی عضو کے تلف ہونے یا کم از کم مرض کے بڑھ جانے کا خوف تھا  تو ایسی صورت میں تیمم کرنے کی اجازت ہوگی، اور اس تیمم کے ساتھ جتنی نمازیں پڑھی گئیں، وہ ادا ہوگئیں ، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے،البتہ گرم پانی میسر ہو جانے کے بعد آئندہ نمازوں کی ادائیگی کے لیےگرم پانی سے غسل کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح اگر ٹھنڈا پانی سے غسل کرنے میں مرض بڑھ جانے کا قویّ اندیشہ ہو اور گرم پانی بھی میسر نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھنا درست ہے،  گرم پانی میسر ہونے کے بعد دوبارہ غسل کر کے نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن اگر بیماری نہ ہو اور بیماری کا محض اندیشہ ہو یا گرم پانی کا انتظام ہو، یا پانی سے غسل کے بعد جسم کو حرارت پہنچانے کا انتظام ہو، جس سے جان جانے یا بیماری کا خطرہ نہ رہے  تو اس صورت میں تیمم کی اجازت نہیں ہو گی۔

بہشتی زیور میں ہے:

”مسئلہ :اگر بیماری کی وجہ سے پانی نقصان کرتا ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے تو بیماری بڑھ جاوے گی یا دیر میں اچھی ہوگی، تب بھی تیمم درست ہے، لیکن اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے غسل کرنا واجب ہے، البتہ اگر ایسی جگہ ہے کہ گرم پانی نہیں مل سکتا تو تیمم کرنا درست ہے۔

مسئلہ: کسی نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، پھر پانی مل گیا تو اور وقت بھی باقی ہے تو نماز کا دہرانا واجب نہیں، وہی نماز تیمم سے درست ہوگئی۔“

(تیمم کا بیان: ج:2، ص: 83-84، ط: دار الاشاعت)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ولو صلى بالتيمم ثم وجد الماء في الوقت لا يعيد منية."

(فروع صلی المجوس بالتیمم: ج:1، ص:255، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"لا يجب على أحد الزوجين توضيء صاحبه وتعهده، وفي مملوكه يجب (أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه."

(سنن التيمم: ج:1، ص:234، ط: سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ويجوز التيمم إذا خاف الجنب إذا اغتسل بالماء أن يقتله البرد أو يمرضه هذا إذا كان خارج المصر إجماعا فإن كان في المصر فكذا عند أبي حنيفة خلافا لهما والخلاف فيما إذا لم يجد ما يدخل به الحمام فإن وجد لم يجز إجماعا وفيما إذا لم يقدر على تسخين الماء فإن قدر لم يجز هكذا في السراج الوهاج . وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان. ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم."

(کتاب الطهارة، الباب الرابع في التیمم، الفصل الأول في أمور لابد منها في التیمم: ج:1، ص:28، ط: حقانیة )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں