بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرمت کرانے کے بعد اگر کوئی اپنا سامان واپس لے کر نہ جائے؟


سوال

 ایک شخص کی دکان ہے جس میں وہ پنکھے موٹرز وغیرہ ٹھیک کرتا ہے تو گاہک اس کے پاس آتے ہیں اور اپنا سامان ٹھیک کرنے کے لیے دے دیتے ہیں اور پھر اسی طرح بہت سارا سامان جمع ہو جاتا ہے اور کوئی گاہک ان سامان کو لینے نہیں آتا تو کیا دکاندار اس سامان کو فروخت کر سکتا ہے جبکہ اس دکاندار کے پیسے بھی لگے ہیں ان سامانوں کے درست کرنے میں پھر کئی دنوں کے بعد کوئی گاہک آتا ہے اور اپنے سامان کو طلب کرتا ہے تو دکاندار کوئی سا بھی سامان جو ٹھیک ہوا ہو اس کو دے دیتا ہے تو کیا دکاندار کا ان سامانوں کو فروخت کرنا صحیح ہے اگر ہاں تو کیوں اور اگر نہیں تو کیوں؟

جواب

مذکورہ شخص کے پاس جو لوگ مرمت کا کام کرانے آتے ہیں اگر حسب میعاد اپنا سامان واپس لے کر نہیں جاتے تو شرعا   ان کا مال مذکورہ شخص کے پاس امانت ہے اور مذکورہ شخص  کی اجرت مرمت کرانے والوں پر  ہے،اگر اصل مالک کے آنے کی امید ہے یا اس کا پتہ ،رابطہ نمبر وغیرہ معلوم ہے تو رابطہ کرکے اس کاسامان اس کو لوٹانا ضروری ہے،اورمالکان کی آمد تک اس مال کی حفاظت ضروری ہے،البتہ اگر کوئی مالک اپنا سامان لینے نہ آئے اور اس کا رابطہ  نمبروغیرہ بھی نہ ہو اور ہر ممکن کوشش کے باوجود  اس تک رسائی نہ ہورہی ہوتو شرعی اعتبار سے اس کا حکم لقطہ کا ہے،یعنی وہ چیز(پنکھا وغیرہ)کسی مستحق کو صدقہ کردیا جائے،بعد میں اگر مالک آجائے تو اس کو اختیار ہوگا وہ اس صدقہ کو برقرار رکھے تو اس کو ثواب ملے گا، یا مذکورہ مرمت کرنے شخص کو اس چیز کا ضامن ٹہرائےتو صدقہ کا ثواب مذکورہ شخص کو ملے گا،یا  اگر سامان موجود ہے توفقیر سے اپنا سامان واپس لے لے،اگر سامان ضائع ہوچکا ہے تو اس سے ضمان وصول کرلے۔

لہذابہتر یہ ہے کہ  مرمت کے لیے آنے والے لوگوں سے ان کا رابطہ نمبر،پتہ وغیرہ پہلے سے لے لیے جائیں،اور اجرت کے ضیاع سے بچنے کے لیے پیشگی اجرت وغیرہ لے کر ثبوت کے طور پر کوئی رسید وغیرہ دے دیں،لیکن مالکان کا اپنا سامان نہ لےجانے کی صورت میں اس کا سامان فروخت کرنا اورکسی  کا سامان کسی دوسرے کودینا شرعا جائز نہیں ہے۔

احسن الفتاوی میں ہے:

"گھڑی ساز کو گھڑی دےکر واپس نہیں آیا:

سوال:زید گھڑیوں کی مرمت کا کام کرتا ہے لوگ مرمت کے لیے گھڑیاں اسے دے جاتے ہیں ان میں سے کچھ گھڑیاں کئی سال سے اس کے پاس پڑی ہیں جن کا کوئی مالک اب تک نہیں آیا اور نہ آئندہ آنے کی امید ہے،گھڑی ساز کو ان مالکان کے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ کون لوگ ہیں؟کہاں رہتے ہیں؟مزید رکھے رہنے سے گھڑیاں زنگ آلود ہوکر بے کار ہوجائیں گی ان کا کیا کیا جائے؟بینوا توجروا

الجواب باسم ملھم الصواب

گھڑی ساز اگر مالکان کی آمد سے مایوس ہوچکا ہے تو ان گھڑیوں کا صدقہ کردے،صدقہ کرنے کے بعد اگر کسی گھڑی کا مالک آجائے تو اسے اختیار ہوگا کی اس تصدق موقوف کا نافذکردے یا لقطہ اٹھانے والے سے اس کا ضمان وصول کرے یا فقیر سے گھڑی لےلے اگر گھڑی اس سے ضائع ہوچکی ہو تو اس سے ضمان وصول کرے۔

اگر لقطہ اٹھانے والے نے ضمان ادا کیا تو صدقہ کا ثواب اس کو ملے گا۔

گھڑی ساز کے لیے اس گھڑی کا فروخت کرنا جائز نہیں۔"

(کتاب اللقطہ،ج6،ص389-390،ط؛ایط ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں