بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرمت کرنے والے کے پاس جو لوگ سامان چھوڑ دیتے ہیں اس سامان کا حکم


سوال

میرا الیکڑانکس کی چیزوں کی مرمت کا کام ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جو چیزیں لوگ مجھے ٹھیک کرنے کے لیے دے جاتے  ہیں ان کو ٹھیک بھی کر دیتا ہوں، کچھ لوگ ان چیزوں کو 6 ماہ ،1سال تک لینے نہیں آتے۔ میرے اس پر خرچ شدہ پیسے بھی بیکار ہونے لگتے ہیں۔ دوکان کا کرایہ بجلی بل بھی ادا کرنے پڑتے ہیں، لوگوں کی پڑی ہوئی چیزیں دوکان میں جگہ بھی گھیرتی ہیں اور وقت پر وہ چیزیں نہ جانے کی صورت میں دکان میں جگہ کم پڑ جاتی میں ان چیزوں کا کیا کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو اگر مالک کا علم (یعنی اس سے رابطہ کا کوئی ذریعہ  ہے یا پتا معلوم ہے)ہے  تو پھر اس تک سامان پہنچانا سائل کی ذمہ داری ہے،لہذا  سائل سامان مالک تک پہنچائے اور اپنی اجرت وصول کرلے،  اگر مالک کا علم (یعنی اس سے رابطہ کا کوئی ذریعہ  ہے یا پتا معلوم ہے)نہیں ہے اور سائل ایک متعد بہ وقت (جس میں عموما مالک آجاتے ہیں) مالک کا انتظار کرچکا ہے تو سائل کو اختیار ہے کہ وہ اس سامان کو صدقہ کردے یا اگر بیچنا چاہتا ہے تو بیچ کر رقم اپنے پاس سنبھال لے، نیز بیچنے کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم سے اپنی اجرت وصول کرنا چاہتا ہے تو  کرسکتا ہے،پھر اگر مالک بعد میں آجائے تو مالک کو اختیار ہے وہ اس صدقہ کو جائز قرار دے دے  تو ثواب اس کو مل جائے گا، یا پھر سائل سے اپنی چیز کا ضمان (اس چیز کی قیمت)  لے لے تو اس صورت میں سائل پر ضمان ادا کرنا لازم ہوگا اور صدقہ کا ثواب سائل کو مل جائے گا، نیز ضمان میں ادا کرتے وقت اپنی اجرت منہا کرکے بقیہ رقم مالک کو ادا کرنا لازم ہوگا۔اسی طرح جس صورت میں سائل نے سامان کو فروخت کیا ہوگا اس صورت میں اگر خریدار کے ہاتھ میں سامان موجود ہو تو پھر مالک سائل کے بیچنے کو کالعدم بھی کرسکتا ہے اور خریدار سے سامان واپس مالک  کو  مل جائے گا اور سائل خریدار کو وصول کردہ قیمت ادا کرے گا۔

  مناسب یہی ہے کہ ایک ضابطہ بنایا جائے اور اسے رسید پر تحریرکروا دی جائےیا زبانی بتایا جائے کہ مثلاً سال یا چھہ ماہ تک اپنا سامان نہ اٹھایا جائے تو اسے فروخت کردیا جائے گا، پھر اجرت کی وصولی کے بعد جو رقم بچے وہ اس کے حوالے کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"رفع شيء ضائع للحفظ على غير لا للتمليك) وهذا يعم ما علم مالكه كالواقع من السكران، وفيه أنه أمانة لا لقطة لأنه لا يعرف بل يدفع لمالكه

(قوله: وفيه أنه أمانة لا لقطة إلخ) فيه نظر، فإن اللقطة أيضا أمانة، وعدم وجوب تعريفه لا يخرجه عن كونه لقطة كما قدمنا؛ لأنه وإن علم مالكه فهو مال ضائع: أي لا حافظ له نظير ما مر في المال الذي يوجد مع اللقيط. وفي القاموس: ضاع الشيء صار مهملا، ولهذا ذكر في النهر أن هذا الفرع يدل على ما استفيد من هذا التعريف من أن عدم معرفة المالك ليس شرطا في مفهومها."

(کتاب اللقطہ، ج نمبت ۴، ص نمبر ۲۷۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه»

(قوله: فينتفع الرافع) أي من رفعها من الأرض: أي التقطها وأتى بالفاء، فدل على أنه إنما ينتفع بها بعد الإشهاد والتعريف إلى أن غلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها، والمراد جواز الانتفاع بها والتصدق، وله إمساكها لصاحبها. وفي الخلاصة له بيعها أيضا وإمساك ثمنها ثم إذا جاء ربها ليس له نقض البيع لو بأمر القاضي، وإلا فلو قائمة له إبطاله؛ وإن هلكت، فإن شاء ضمن البائع وعند ذلك ينفذ بيعه في ظاهر الرواية."

(کتاب اللقطہ، ج نمبت ۴، ص نمبر ۲۷۹، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں  ہے:

"(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون (في العقبي)."

(کتاب اللقطہ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۲۸۳، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں