بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرا ہوا بچہ پیٹ سے نکالنے کے بعد غسل کا حکم


سوال

اگر زندہ عورت کے پیٹ میں بچہ مرجائے تواس کے کفن دفن کے بعد کیا عورت ساتواں یا تیسواں نہائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  پیٹ کے اندر بچہ کے اعضاء میں سے کوئی عضو  بن گئی تھی یعنی چارماہ   حمل کے ہوچکے تھے، اور  بچہ نکالنے کے بعد خون جاری ہے تو  اس کے بعد آنے والے خون پر نفاس کا حکم ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر مذکورہ خاتون معتادۃ ہے تو عادت کے مطابق جو خون ہوگا وہ نفاس کا ہوگا، اس کے بعد پاکی ہوگی ، لہذا عادت کے مطابق دن گزارنے کے بعد غسل کریں گی،  اگر   بچہ کے اعضاء میں سے کوئی عضو  نہیں بنا؛ بلکہ صرف خون کے لوتھڑے کی شکل میں حمل ضائع ہوا تو اس خون پر حیض کا حکم ہوگا بشرط یہ کہ کم از کم تین دن خون آیا ہو، اور حمل ضائع ہونے سے پہلے ایک کامل  طہر  (پاکی)   یعنی پندرہ یا زائد دن پہلے خون نہ آیا  ہو اگر یہ شرط فوت ہوگئی مثلاً ایک ہی دن خون آکر بند ہوگیا یا حمل ضائع ہونے سے دس دن پہلے (پندرہ دن سے پہلے پہلے) خون آیا تھا تو ایسی صورت میں آنے والا خون استحاضہ ہوگا،  اگر بچہ کے اعضاء سے پہلے حمل ضائع ہوا اور بعد میں خون مسلسل آنے لگا تو اگر دس دن کے اندر خون بند ہوگیا تو پورا حیض ہوگا اور اگر دس دن سے آگے بڑھ جائے تو عادت کے بقدر حیض ہوگا یعنی حمل سے پہلے آخری مرتبہ جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض ہوگا اور باقی استحاضہ ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ دیکھا جائے گا کہ خون آیا ہے یا نہیں اگر آیا ہے  تو پھر دیکھا جائے گا کہ نفاس کا ہے یا حیض کا پھر اس کے مطابق غسل کا حکم ہوگا، ساتویں یا تیسویں  کا اعتبار نہیں ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهو دم يعقب الولادة كذا في المتون ولو ولدت ولم تر دما لا يجب الغسل عند أبي يوسف وهو رواية عن محمد قال في المفيد هو الصحيح لكن يجب عليها الوضوء بخروج النجاسة مع الولد. هكذا في التبيين وعن أبي حنيفة رحمه الله يجب الغسل وأكثر المشايخ أخذوا بقوله وبه كان يفتي الصدر الشهيد. هكذا في المحيط وقال أبو علي الدقاق وبه نأخذ. كذا في المضمرات وفي الفتاوى هو الصحيح. هكذا في الجوهرة النيرة."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء ، الفصل الثاني في النفاس، ج:1، ص:37، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"لو خرج أكثر الولد تكون نفساء وإلا فلا وكذا لو انقطع فيها وخرج أكثره والسقط إن ظهر بعض خلقه من ‌أصبع أو ظفر أو شعر ولد فتصير به نفساء. هكذا في التبيين وإن لم يظهر شيء من خلقه فلا نفاس لها فإن أمكن جعل المرئي حيضا يجعل حيضا وإلا فهو استحاضة.

 وإن رأت دما قبل إسقاطه ودما بعده فإن كان مستبين الخلق فما رأته قبله لا يكون حيضا وهي نفساء فيما رأته بعده وإن لم يكن مستبين الخلق فما رأته قبل الإسقاط حيض إن أمكن جعله حيضا هكذا في النهاية ولو ولدت من قبل سرتها بأن كان ببطنها جرح فانشقت وخرج الولد منها تكون صاحبة جرح سائل لا نفساء. هكذا في الظهيرية والتبيين إلا إذا خرج من الفرج دم عقيب خروج الولد من السرة فإنه حينئذ يكون نفاسا. هكذا في التبيين."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء ، الفصل الثاني في النفاس، ج:1، ص:37، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة.

(قوله: فليس بشيء) قال الرملي في حاشية المنح بعد كلام: وحاصله: أنه إن لم يظهر من خلقه شيء فلا حكم له من هذه الأحكام (قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء ... (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثاً وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثاً ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثاً ولاتقدمه طهر تام ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، ج:1، ص:302، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں