بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتول کے جرمانہ کی رقم کا حق دار کون ہے؟ / مقتول کی ماں کے پاس موجود سونے پر زکوۃ کا حکم


سوال

 ایک شخص کو کسی جھوٹے جرم میں قتل کیا گیا، بعد ازاں جرگہ نے تحقیق کے بعد قاتل کو قصوروار ٹھہرایا اور مقتول کو بے  قصور، اس کے بعد جرگہ والوں نے قاتل پر مالی جرمانہ لگایا ،جو مقتول کی ماں کو دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مال کا کیا کیا جاۓ؟ آیا یہ ماں کی ملکیت ہے یا گھر کے دوسرے افراد بھی اس مال میں شامل ہیں؟ نیز ماں کے پاس کچھ سونا بھی ہے تو زکوۃ کس حساب سے تقسیم ہوگی؟ جرمانہ والی رقم ماں کے پاس ہے۔

جواب

۱۔واضح رہے کہ قتل  دو مردوں کی گواہی یا قاتل کے اقرار سے ثابت ہوتا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مالی جرمانے سے مراد قتل کے شرعی ثبوت کے بعد جرگہ والوں کا قاتل پر  بدلِ صلح مقرر کرنا ہے تو اس  بدلِ صلح میں تمام شرعی ورثاء کا حق ہے  اور یہ  رقم مقتول کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی، والدہ اکیلی اس رقم  کی مالک نہیں ہے۔

۲۔  مقتول کی والدہ کے پاس موجود سونا اور بدلِ صلح میں اس کے حصے کو ملا کر مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ رہا  ہوتو مقتول کی والدہ پر زکوۃ لازم ہوگی    ۔

فتاو ی عالمگیری میں ہے:

"يجوز الصلح عن جناية العمد والخطأ في النفس وما دونها إلا أنه لو صالح في العمد على أكثر من الدية جاز، كذا في الاختيار شرح المختار، ويكون المال حالا على الجاني في ماله دون العاقلة، كذا في الحاوي."

(کتاب الصلح، الباب الثانی عشر فی الصلح عن الدماء و الجراحات جلد ۴ ص:۲۶۰ ط:دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث."

(کتاب الفرائض ، الباب الثانی فی ذوی الفروض جلد ۶ ص : ۴۴۷ ط : دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وتضم ‌قيمة ‌العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة عنده خلافا لهما، ولو ملك مائة درهم وعشرة دنانير أو مائة وخمسين درهما وخمسة دنانير أو خمسة عشر دينارا أو خمسين درهما تضم إجماعا كذا في الكافي."

( کتاب الزکوۃ ، الباب الثالث فی زکوۃ الذهب و الفضة و العروض جلد ۱ ص : ۱۷۹ ط : دارالفکر)

البحرالرائق میں ہے:

"‌أن ‌الزكاة ‌تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة."

(کتاب الزکاۃ ، شروط وجوب الزکاۃ، ج: ۲ ص : ۲۲۲ ط : دار الکتاب الإسلامي)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں