بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتولہ کی والدہ کا دیت معاف کرنا


سوال

ایک مطلقہ عورت قتل ہوئی جس کا والد پہلے سے فوت شدہ ہے اور ماں زندہ ہے اور ملزم کو دیت معاف کرکے ملزم سے راضی نامہ کر چکی ہے۔ لیکن متوفیہ کے دو بہن اور ایک بھائی موجود ہیں ۔ کیا راضی نامہ میں بطور ورثاء بہنیں اور بھائی کا شامل ہونا شرعاً لازمی ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں والدہ کا دیت میں شرعی میراث کے اعتبار سے  جتنا حصۃ بنتا ہے والدہ اتنا حصہ دیت میں معاف کرسکتی ہے،اور دیت میں سے اپنے شرعی حصہ  (چھٹے حصے) کے بقدر معاف کرنا معتبر اور درست رہا، اس کے علاوہ جو باقی دیت  ہے وہ مقتولہ کے تمام شرعی ورثا ء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی البتہ اگر باقی ورثاء بھی دیت معاف کرنے پر راضی ہوں تو دیت معاف ہوجائے گی، واضح رہے کہ مقتولہ کے والدین اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں بھائی بہن وارث ہیں۔

البحر الرائق میں ہے :

"فإن صالح أحد الأولياء من حظه على عوض أو عفا فلمن بقي حظه من الدية) ؛ لأن كل واحد منهم متمكن من التصرف في نصيبه استيفاء وإسقاطا بالعفو وبالصلح؛ لأنه يتصرف في خالص حقه فينفذ عفوه وصلحه فسقط به حقه من القصاص."

(کتاب الجنایات ، فصل فی الصلح جلد ۸ ص: ۳۵۳ ط: دارالکتاب الاسلامي)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں