بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کاروباری پر زکوۃ کا حکم


سوال

سائل کی بیگم تین تولے سونے کی مالک ہے، جب کہ سائل ساڑھے تین لاکھ کا قرض دار ہے،  نیز سائل خود بھی الگ سے تین تولے سونے کا مالک ہے،  جو کاروبار میں لگا ہوا ہے،  جس کی آمدن ایک بار نہیں آئی،  تو اس صورت میں زکوۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی کے پاس اگر اس کی ملکیت میں صرف تین تولہ سونا ہے،  چاندی یا نقدرقم نہیں ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، تاہم اگر اس کے  ساتھ  کچھ چاندی یا نقدی بھی ہو، اور ان دونوں چیزوں کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت(جو کہ آج بتاریخ2024/ 3/ 27 کو 135,292 روپے بنتی ہے) سے زیادہ ہے، تو مذکورہ خاتون پر سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا لازم ہے،  نیز بیوی کے مال کی وجہ سے شوہر پر زکات واجب نہیں ہوئی، البتہ بطورِ وکیل سائل اپنی بیوی کی طرف سے زکات ادا کرسکتا ہے، اس صورت میں زکات نکالنے سے پہلے بیوی کے علم میں لانا ضروری ہوگا کہ اس کی طرف سے زکات نکال رہاہوں، کیوں کہ زکات کی ادائیگی کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے۔

نیز  جب سائل  کے پاس تین تولہ کاروباری سوناہوتے ہوئے  ساڑھے تین لاکھ روپے کا مقروض بھی  ہے،تو اگر سائل کے پاس چاندی، کیش، یا مالِ تجارت میں سے اتنا مال نہیں ہے کہ قرض کی رقم مِنہا  کرنے کے بعد نصاب یعنی ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر مال بچ جائے تو سائل پر اس صورت میں زکوۃ نہیں ہے۔

فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے:

"(ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) وقال الشافعي: تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام. ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة (وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا) لفراغه عن الحاجة الأصلية".

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:160، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں