ایک سید قرض دار ہوگیا،اس کی جائیدادہے لیکن سب بھائیوں کے ساتھ مشترکہ ہے،تو وہ سید اپنا قرضہ زکوۃ لے کر دے سکتا ہے؟کیوں کہ وہ سید کماکر قرضہ ادا نہیں کر سکتا اس لئے کہ اس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں اور یہ قرضہ اس نے اپنے علاج کی خاطر لیا تھا،اس کے والد بھی فوت ہوچکے ہیں اور کمانے والا بھی کوئی نہیں۔
واضح رہے کہ سادات کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے،اور زکوٰۃ کی رقم سے سید کا تعاون کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’یہ صدقات (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔
لہذاسید کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے،تاہم سید اگر غریب اور مقروض ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں کو چاہیے کہ وہ اس کی زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ نفلی صدقات وعطیات وغیرہ سے امداد کرکے اس کے قرضہ کی ادائیگی کا انتظام کریں،یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہےكہ :”رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو“،لیکن اگر سید کی ضروریات کا انتظام صدقات نافلہ سے یا عطیات سے نہیں ہورہاتو ایسی صورت میں زکوٰۃ دینے والاشخص کسی غریب کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادے،پھر اس کو کہے کہ فلاں آدمی غریب ہےمقروض ہے،سید ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا،تم زکوٰۃ کی رقم کے مالک بننے کے بعد اپنی طرف سے اپنی مرضی سے اس سید کو دےدو،بعد ازاں سید شخص یہ رقم لے کر اپنا قرض چکادے ،تو اس طرح کرنے سے سید کا قرض بھی ادا ہو جائے گا،اور یہ غریب شخص بھی ثواب کا مستحق ہو جائے گا۔
صحيح مسلم ميں ہے:
"حدثنا هارون بن معروف ... قالا: لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس، ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه ... ثم قال لنا إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد."
(كتاب الزكاة،باب ترك استعمال آل النبي على الصدقة،2 / 754، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
صحيح البخاری میں ہے:
"أخبرني عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا خالد، حدثنا شعبة، عن واقد، قال: سمعت أبي يحدث، عن ابن عمر، عن أبي بكر رضي الله عنهم، قال: ارقبوا محمدا صلى الله عليه وسلم في أهل بيته."
(باب فضائل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،باب مناقب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:5 ،ص: 20، ط: دار طوق النجاة)
البحر الرائق ميں ہے:
"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة، ولحديث أبي داود: مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة."
(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،2/ 265،ط: دارالكتاب الاسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101536
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن