بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض پر زکاۃ کے وجوب کا حکم


سوال

اگر کسی پر قرض ہے اور اس کے اوپر زکوٰۃ بھی واجب ہے یعنی اتنا پیسہ ہے کہ  یا تو زکوٰۃ ادا کرلے یا پھر قرض ادا کرلے تو پہلے  اسے کیا ادا کرنا چاہیے؟

جواب

اگر کسی شخص کے پاس قابل زکوۃ اموال موجود ہوں اور جتنی مالیت موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے ، یا یہ مالیت کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔اسی طرح اگر مقروض کے پاس اتنی مالیت ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی نصاب سے کم مالیت پر زکوۃ نہیں ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص مقروض ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچتا ہو اور سال گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ مال کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اگر سوال میں مذکورہ مقروض شخص کے پاس قرض کی ادائیگی کے بعد باقی مال نصاب کے برابر یا نصاب سے زائد باقی بچتا ہے اور سال گزرچکا ہو تو اس بقیہ مال کی زکوۃ ادا کرنا اس پر لازم ہے۔البتہ اگر ادائیگی کے لیے نقد رقم فوری طور پر موجود نہ ہو اور قرض خواہ اپنے قرض کی وصولی کا مطالبہ کررہے ہوں تو اس صورت میں زکوۃ کی رقم کو کچھ عرصہ کے لیے موخر کرسکتے ہیں، بلاوجہ زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیرجائز نہیں ۔ قرض کی ادائیگی میں جلدی نہ ہو یا قرض خواہوں کی جانب سے مطالبہ نہ ہو تو پہلے قرض کے علاوہ باقی مال کی زکوۃ ادا کردی جائے اور قرض کی رقم بعد میں دے دی جائے۔

اور اگر اس شخص کے پاس موجود مجموعی مال صرف قرض کے برابر ہو یعنی قرض اد اکرنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچتا ہو (جیساکہ سوال سے معلوم ہورہاہے تو) اس صورت میں زکوۃ لازم نہ ہوگی۔

فتح القدير لكمال بن الهمام - (3 / 475):
"( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام .
ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة ". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109201696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں