بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض پر زکات کے وجوب کا حکم


سوال

 میں ملازم پیشہ بندہ ہوں، میں نے بہت مجبوری کی حالت میں بینک سے 5 لاکھ لون لیا تھا کیونکہ اپنے لئے گھر بنانا تھا،بہت کوشش کی کہ کوئی اور راستہ نکلے لیکن کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا، مجبورا بینک کا راستہ لینا پڑا،کچھ دوستوں سے بھی قرض لیا تھا اکثر کو ان کا قرض ادا کر دیا ہے، لیکن کچھ کو ابھی بھی ادا کر رہا ہوں جو کہ 3 یا 4 مہینہ میں مکمل ہو جائے گا ان شا اللہ، لیکن ہر مہینے مجھے بینک کو 15753 روپے دینا پڑتا ہے جوکہ اگست 2026 تک بینک کو دینا پڑے گا، میرے پورے گھر کا خرچہ میرے اوپر ہے کیونکہ میں اکیلا سر پرست ہوں، میں ہر مہینے کچھ کچھ روپے اپنے پاس حفاظت کے طور پر بھی رکھ رہا ہوں تاکہ موقع ملے تو یک مشت بینک کا قرض ادا کروں۔

اب آپ سے کچھ سوالات ہیں: (1) کیا مجھے زکات دینا پڑے گی؟ اگر ہاں تو طریقہ عنایت فرمائیں (2) اگر نہیں تو کب تک؟

جواب

آپ کے پاس جو رقم جمع شدہ ہے، اس میں سے قرض کو منہا کرنے کے بعد اگر بقیہ رقم نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو زکات واجب ہوگی اور اگر بقیہ رقم نصاب کی مقدار سے کم ہو تو زکات واجب نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ بینک جو مختلف کاموں کے لیے قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے،   جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے، اس لیے آپ کو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اپنا ذاتی گھر خریدنے کے لیے سودی قرضہ لینے کی بجائے کوئی دوسرا  جائز متبادل راستہ (مثلاً غیر سودی قرضہ ) اختیار کرتے اور جب تک غیر سودی قرضہ نہ ملتا اس وقت تک کرائے کے مکان میں ہی گزارا  کرنے کی کوشش کرتے، لہٰذا اب آپ پر لازم ہے کہ جلد سے جلد بینک کا قرض واپس لوٹاکر اس سودی قرضہ سے جان چھڑائیں اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے اس حرام فعل پر ندامت کے ساتھ استغفار و توبہ کریں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: «هم سواء» . رواه مسلم."

(مشكاة المصابيح ، كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، 2/ 855، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)."

(كتاب الزكاة، 2/ 259، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا كان على الرجل دين ‌وله ‌مال ‌الزكاة وغيره من عبيد الخدمة، وثياب البذلة، ودور السكنى فإن الدين يصرف إلى مال الزكاة عندنا سواء كان من جنس الدين أو لا ولا يصرف إلى غير مال الزكاة، وإن كان من جنس الدين."

(كتاب الزكاة،فصل شرائط فرضية الزكاة،2/ 8، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں