بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد اگر مقروض ہو تو انتقال کے بعد کمیٹی والوں کے ذمہ ان کا قرض اتارنا لازم ہے یا نہیں؟


سوال

میرے والد محترم ایک جامع مسجد میں عرصہ 35 سال سےبطورِ خطیب دینی خدمات سرانجام دے رہے تھے اور آج سے ساڑھے چار ماہ قبل والد محترم کا انتقال ہو گیااور اس طویل عرصہ میں جو والد محترم کی تنخواہ جامع مسجد کی طرف سے مقرر تھی وہ صرف 10500روپے تھی، گھربھی کرایہ کاہے،   زیادہ بہتر کوئی ذریعہ آمدن نہ ہونے کی بنا پر علاج معالجے پر جو خرچہ آیا وہ لوگوں سے قرض لے کر پورا کیا گیا، اب اس موقع پر مسجد کی کمیٹی والوں کا حق یہ نہیں بنتا کہ مرحوم کے ذمہ جو قرضہ ہے، اس کواحسن طریقے سے ادا کریں،  یا جتنا ہوسکے مرحوم کے گھر والوں کے ساتھ مالی تعاون کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم کے علاج معالجہ کے لیے جو قرضہ لیا گیا تھا، اس کی ادائیگی مسجد کی کمیٹی والوں کے ذمہ لازم تو نہیں، تاہم اگر کمیٹی والے قرض ادا کرنے میں مدد کردیں تو ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا، جس کا بدلہ انہیں آخرت میں ملے گا۔

مقروض میت کا قرضہ اتارنا باعثِ اجر وثواب ہے، كیوں کہ جب کسی کا انتقال اس حالت میں  ہوجاتا کہ اس کے ترکہ میں کچھ نہ ہوتا اور ان کے ذمہ قرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بذات خود قرض اتارنے کی ذمہ داری لے لیتے اور اگر کوئی اور ذمہ داری قبول کرلیتا تو خوش ہوجاتے اور اس کو دعاؤں سے نوازتے، اس لیے مرحوم کے صاحبِ استطاعت رشتہ داروں اور مسجد کی کمیٹی والوں کو  چاہیے کہ مرحوم کے قرضہ اتارنے میں مدد کریں، تاکہ مرحوم کا مؤاخذہ نہ ہو اور رشتہ داروں  اور مسجد کی کمیٹی والوں کےلیے  ذخیرۂ آخرت بنے۔

بہر حال اگر کوئی شخص اتنی رقم قرضہ اتارنے کےلیے دے جس سے کل قرضہ ادا ہوسکتاہو، تو اس سے قرضہ ادا کیاجائے  اور اگر دی ہوئی رقم  کم ہے،اور  قرض  زیادہ ہے، تو ہر قرض خواہ کو اس کے قرض کے تناسب سے  ادا کر دیا جائے۔

    نیز اگر مرحوم کے ورثا ء میں کوئی شخص صاحبِ نصاب نہ ہو، تو وہ زکوٰۃ لے کر بھی اپنی طرف سے مرحوم کے قرضہ جات ادا کرسکتا ہے۔

صحيح بخارى میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «كان يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين، فيسأل: هل ترك لدينه فضلا، فإن حدث أنه ترك لدينه وفاء، صلى، وإلا قال للمسلمين: صلوا على صاحبكم. فلما فتح الله عليه الفتوح، قال: أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي من المؤمنين فترك دينا، فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فلورثته".

(كتاب الكفالة، باب الدين، ج:3، ص:97، ط:دار طوق النجاة)

عمدة القارى ميں ہے:

"عن علي رضي الله تعالى عنه كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا أتى بجنازة لم يسأل عن شيء من عمل الرجل ويسأل عن دينه فإن قيل عليه دين كف وإن قيل ليس عليه دين صلى فأتى بجنازة فلما قام ليكبر سأل هل عليه قالوا ديناران فعدل عنه وقال صلوا على صاحبكم فقال علي رضي الله تعالى عنه هما علي وهو بريء منهما فصلى عليه ثم قال لعلي " جزاك الله خيرا وفك الله رهانك كما فككت رهان أخيك إنه ليس من ميت يموت وعليه دين إلا وهو مرتهن بدينه ومن فك رهان ميت فك الله رهانه يوم القيامة فقال بعضهم هذا لعلي خاصة أم للمسلمين عامة قال بل للمسمين عامة " ۔۔۔ وقال القرطبي التزامه - صلى الله عليه وسلم - بدين الموتى يحتمل أن يكون تبرعا على مقتضى كرم أخلاقه لا أنه أمر واجب عليه قال وقال بعض أهل العلم يجب على الإمام أن يقضي من بيت المال دين الفقراء اقتداء بالنبي - صلى الله عليه وسلم - فإنه قد صرح بوجوب ذلك عليه حيث قال فعلي قضاؤه ولأن الميت المديون خاف أن يعذب في قبره علي ذلك الدين لقوله - صلى الله عليه وسلم - الآن حين بردت جلدته وكما أن على الإمام أن يسد رمقه ويراعي مصلحته الدنيوية فالأخروية أولى وقال ابن بطال فإن لم يعط الإمام عنه شيئا وقع القصاص منه في الآخرة ولم يحبس الميت عن الجنة بدين له مثله في بيت المال إلا أن يكون دينه أكثر مما له في بيت المال وفي شرح المهذب قيل أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يقضيه من مصالح المسلمين وقيل من ماله وقيل كان هذا القضاء واجبا عليه وقيل لم يصل عليه لأنه لم يكن للمسلمين يومئذ بيت مال فلما فتح الله عليهم وصار لهم بيت مال صلى على من مات وعليه دين ويوفيه منه".

(كتاب الحوالات، باب إذا أحال دين الميت على رجل جاز، ج:12، ص:113، ط:دار احياء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں