بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کو زکوٰۃ دے کر رب المال کا اپنے پیسے وصول کرنا


سوال

دو  دوستوں نے شراکت داری سے کاروبار شروع کیا، ایک دوست نے پیسے لگائے اور دوسرا دوست محنت کا شریک رہا ،  معاملہ کے وقت طے یہ کیا تھا کہ نفع ونقصان میں دونوں شریک ہوں گے، صرف پیسہ لگانے والا کا نفع میں  ٪40 فیصد حصہ اور کام کرنے والے کا ٪60 فیصد حصہ ہوگا۔تقریباً ایک سال  تک جو محنت کررہا تھا وہ اپنا ماہانہ خرچہ نکالتا رہا اور جس نے رقم لگائی اس کو کچھ نہیں ملا، اور نظر یہ آیا کہ ایک بندہ ہی کا خرچہ نکل سکتا ہے، اب جس نے پیسہ لگائے تھے اس نے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلی کہ تمہاری طرف یہ رقم نکلتی ہے،  جس کو بطورِ قرضہ مانا گیا۔معلوم یہ کرنا ہے کہ  پیسہ لگانے والا اس کام کرنے والے دوست کو زکوٰۃ کی رقم دے سکتا ہے ( کام کرنے والا زکوٰۃ کا مستحق ہے) اور یہ زکوٰۃ  جس نے پیسہ لگائے تھےوہ زکوٰۃ کی صورت میں ادا کرے اور اس سے یہ کام کرنے والا اس دوست کو اس کو لگائے پیسے واپس کردے؛ تاکہ اس سے اس کے لگائے ہوئے پیسے اس کو مل جائیں اور اس دوست کی زکوٰۃ ادا ہوجائے۔

مستفتی کی طرف سے مزید وضاحت:

تقریباً  بارہ لاکھ کا سرمایہ تھا،  لیکن کام نہیں چل سکا،  وہ دوست یہ کہہ رہا تھا کہ بس میں اپنے خرچہ کے پیسے نکالتا ہوں ، تو میں نے کام ختم کردیا اور کہا  کہ  یہ جو میں نے بارہ لاکھ دئیے تھے، وہ واپس کردینا یہ آپ کے ذمہ میں قرض ہے۔ اب وہ اصل سرمایہ کا مال جس میں کرایہ کی دکان،مشینری وغیرہ شامل  ہے، اس کی مالیت تقریبا ً تقریبا اصل سرمایہ سے آدھی ہوگی۔ 

جواب

واضح رہے کہ  اگر کاروبار میں ایک شخص کا ”سرمایہ“ ہو اور دوسرے کی محنت ہو  تو اس کو شرعاً ” مضاربت“ کہا جاتا ہے، اور مضاربت میں  نقصان ہو تو  اس کا حکم یہ ہے کہ  اس کو پہلے  نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر نقصان  پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور انویسٹر کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرط یہ کہ مضارب(ورکنگ پارٹنر)  کی طرف سے تعدی  اور کوتاہی ثابت نہ ہو۔

لہذا صورت مسئولہ میں     اگر مذکورہ کام نہیں چل سکا، اور اس میں نقصان ہوگیا ہے، اور اس میں کام کرنے والے دوست کی کوئی تعدّی اور کوتاہی نہیں تھی تو  یہ نقصان سرمایہ لگانے والے دوست ہی کا شمار ہوگا، اس سرمایہ کو قرض شمار کرکے کام کرنے والے دوست کو زکوٰۃ کی مد میں وہ رقم دے کر اس سے اپنی رقم واپس لینا جائز نہیں ہے۔

نیز اب کام ختم کرنے کی صورت میں کام کرنے والے دوست پر لازم ہوگا کہ وہ  مضاربت کے مال کو فروخت کرکے  یا اس کی مالیت لگا کر اتنی رقم  سرمایہ دار کو واپس کرے،  اور اس نے جو رقم خرچہ کے لیے لی تھی، اگر وہ  اصل سرمایہ سے لی تھی تو اس رقم کا لوٹانا بھی لازم ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين".

 

 (قوله ولو فاسدة) أي سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة، وسواء كان الهلاك من عمله أو لا ح (قوله: من عمله) يعني المسلط عليه عند التجار، وأما التعدي فيظهر أنه يضمن سائحاني."

(5 / 656،كتاب المضاربة، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں