بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کی ملکیت میں مکان اور بارانی زمین ہو تو کیا وہ زکوٰۃ کا مستحق ہوگا؟


سوال

 اگر کسی کے پاس اپنا مکان بھی ہو اور بارانی زمین بھی لیکن دس پندرہ لاکھ قرض دار بھی، کیا وہ زکوۃ کا مستحق ہے؟

جواب

جس شخص  کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم   یا تجارت کا سامان، یا ضرورت  اصلیہ اور استعمال سےزائد اتنا سامان یا زمین موجود نہ  ہو  جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو  یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہو ، اس کی ملکیت میں موجود نہ ہو اور وہ ہاشمی (سید/عباسی)  نہ ہو وہ زکاۃ کا مستحق ہے، اس کو زکاۃ دینا جائز ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں، اسی طرح جو اشیاء استعمال میں ہوں اور تجارت کی نیت سے خریدی نہ گئی ہوں وہ بھی نصاب میں شمار نہیں ہوں گی۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا رہائشی مکان ضرورت اصلیہ میں داخل ہے، اسی طرح  زمین اگر غلہ وغیرہ کے لیے ہو اور اس کے غلہ سے گھر کی ضرورت پوری ہوتی ہو تو وہ ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہو گی ، اور ایسی صورت میں ایسا شخص جو صاحبِ نصاب نہ ہو  ان زمینوں کے ملکیت میں ہوتے بھی زکوۃ کا مستحق ہوگا۔

اور جو زمینیں استعمال میں نہ ہوں اور ضرورت سے زائد ہوں، اور ان کا غلہ یا ان کا کرایہ گھر کی ضروریات میں صرف نہ ہوتا ہو تو وہ ضرورتِ اصلیہ میں داخل نہیں ہوں گی، اور ان کی قیمت اگر نصاب کے بقدر ہو تو ایسا شخص زکوۃ کا مستحق نہیں ہوگا، لیکن اگر  اس کے اوپر اتنا قرضہ ہو کہ اگر اس کو نکالا جائے تو اس کے پاس نصاب سے کم رقم باقی رہے،  تب بھی یہ زکوٰۃ کا مستحق ہوگا، اور اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312):
"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم".

وفیه أیضًا (2/ 348) :
"وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لاتكفيه وعياله أنه فقير و يحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لايحل، وكذا لو له كرم لاتكفيه غلته؛ ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة، قيل: لاتحل، وقيل: يحل؛ لأنه يستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم، وقد ادخر عليه الصلاة والسلام لنسائه قوت سنة، ولو له كسوة الشتاء وهو لايحتاج إليها في الصيف يحل ذكر هذه الجملة في الفتاوى. اهـ. وظاهر تعليله للقول الثاني في مسألة الطعام اعتماده.
وفي التتارخانية عن التهذيب: أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لايسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولاتكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لايحل اهـ ملخصًا".  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں