بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کے سامان کو فروخت کرکے اپنا حق وصول کرنا


سوال

عمر ، زید کا مقروض ہے، لیکن وہ قرض دینے کے لیے تیار نہیں،جب بھی اس سے قرض کا مطالبہ کرتاہے تو وہ کہتاہے کہ ابھی میرے پاس نہیں بعد میں دوں گا، لیکن کئی سال گذر گئے  ہیں  وہ ابھی تک دیا نہیں، تو کیا اگر زید کو عمر کا کوئی سامان وغیرہ مل جائے اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرسکتاہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر عمر واقعی تنگدست اور پریشان ہے اور  زید  کے پاس مالی وسعت ہے، تنگی نہیں ہے تو  اس کو چاہیے کہ وہ عمر کو مہلت دے،  اس میں بہت زیادہ اجرو ثواب ہے، اور اگر معاف کردے تو یہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہے، تاہم اگر  عمر جان بوجھ کر ٹال مٹول کررہا ہے، مطالبے اور کوشش کے باوجود  زید کو اپنا حق نہ مل رہا ہو تو عمر کے سامان کو فروخت کرکے اپنا حق وصول کرنے کی گنجائش ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اپنے حق سے زیادہ وصول نہ کر لے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومثل دينه ولو) دينه (مؤجلا أو زائدا عليه) أو أجود لصيرورته شريكا (إذا كان من جنسه ولو حكما) بأن كان له دراهم فسرق دنانير وبعكسه هو الأصح لأن النقدين جنس واحد حكما خلاف العرض ومنه الحلي، فيقطع به ما لم يقل أخذته رهنا أو قضاء. وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة .

مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة

(قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفًا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا؛ فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق."

(4/ 94، 95، كتاب السرقة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں