بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کا قرض لوٹانے میں تاخیر کرنا


سوال

میرے چھوٹے بھائی نے مجھ سے قرض لیا، جس میں نقد رقم اور بیوی کے زیورات ہیں ، جس کو دیے ہوئے دو سال کا عرصہ گزر گیا ہے   جوکہ میں نے اپنے بیٹے کے علاج کیلئے رکھے ہوئے تھے، میرا ایک ہی بیٹا ہے جو  15 سال سے بیمار ہے اب مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے لیکن وہ دے نہیں رہا ،بات بات پر قرآن کریم کی جھوٹی قسم کھاتا ہے ، جب کہ وہ سونے کا کاروبار کرتا ہے  ،شریعت کی رو سے اس کا حل بتائیں ؟

جواب

واضح رہے کہ قرض  کا تعلق حقوق العباد  سے ہے، اور گنجائش کے باوجود ادا نہ کرنا اور ٹال مٹول کرنا ظلم ہےاور قرض ادا نہ کرنے پر حدیث مبارک میں سخت وعید آئی ہے ،چناں چہ   احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ ابتداءِ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جو  قرض ادا کیے بغیر انتقال کرجائے اور اپنے پیچھے اتنا ترکہ بھی نہ چھوڑے جس سے قرض ادا کیا جاسکے، اور کوئی شخص اس کی طرف سے قرض ادا کرنے کی ضمانت بھی نہ لے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمادیتے تھے کہ اپنے بھائی پر نماز پڑھ لو،  بعد ازاں جب فتوحات  ہوئیں  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اگر کوئی ایسا مقروض انتقال کرجائے جس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، لہذا سائل کے بھائی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کا قرض لوٹائےاور اس میں تاخیر نہ کرے،بلاوجہ تاخیر اور  ٹال مٹول کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، البتہ اگر مطالبہ اور کوشش کے باوجود سائل کو اپناحق نہ مل رہاہو تو زبردستی لینےیا اس کا کوئی سامان  اپنے  قرض کے بدلے لینے کی گنجائش ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة؛إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال (‌مطل ‌الغني ظلم، إذا أتبع أحدكم على ملء فليتبع)."

(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج3،ص1197،ط:دار إحياء التراث العربي)

وفیہ ایضا:

"عن أبي هريرة؛أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالرجل الميت، عليه الدين، فيسأل (هل ‌ترك ‌لدينه من قضاء؟) فإن حدث أنه ترك وفاء صلى عليه، وإلا قال (صلوا على صاحبكم)، فلما فتح الله عليه الفتوح قال (أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته)."

(کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثته، ج: 3، ص: 1237، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومثل دينه ولو) دينه (مؤجلا أو زائدا عليه) أو أجود لصيرورته شريكا (إذا كان من جنسه ولو حكما) بأن كان له دراهم فسرق دنانير وبعكسه هو الأصح لأن النقدين جنس واحد حكما خلاف العرض ومنه الحلي، فيقطع به ما لم يقل أخذته رهنا أو قضاء. وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة .

مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة

(قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفًا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا؛ فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق."

(كتاب السرقة،4/ 94،95، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں