بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کا قرض روپے کی صورت میں قبضہ کرنے کے بعد قرض خواہ کا ریال کی صورت میں مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

زید نے عمرو سے تقریبًا 6 سال پہلے قرض  کا مطالبہ کیا تھا ،کل 7 لاکھ روپے پاکستانی، عمرو نے یہ پیسے قطر سے بھیجے تھے، اب زید عمرو کا قرض لوٹانا چاہتا ہے اور پاکستانی 7 لاکھ روپے دے رہا ہے،  لیکن زید کا مطالبہ یہ ہے کہ قرض دیتے وقت جتنے ریال قطر سے بھیجے تھے مجھے وہی  چاہییں،  اب اگر زید اتنے ہی ریال ادا کرنا چاہے تو پاکستانی 21 لاکھ روپے بنتے ہیں،  جب کہ اصل قرض 7 لاکھ پاکستانی روپے ہیں،  اب سوال یہ ہے کہ زید پاکستانی 7 لاکھ روپے ادا کرے گا یا قطری ریال ادا  کرے گا؟ اگر قطری ریال ادا  کرے گا تو 7 لاکھ پاکستانی کے حساب سے دےگا یا موجودہ 21 لاکھ کے حساب سے ؟ واضح رہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ قرض واپس قطری ریال ادا  کرے گا یا پاکستانی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  زید نے  عمرو سے   سات  لاکھ روپے قرض کا مطالبہ کیا جس پر انہوں  نے  قطر سے  بھیج دیے تھے  تو  اگر  عمرو نےریال کی صورت میں بھیجے  تھے اور  زید کو  وصول  بھی  ریال کے صورت   میں  ہوگئے تھے تو پھر  زید پر اتنے ریال واپس کرنا ضروری ہے  جتنے انہیں وصول ہوئے تھے،  چاہے ابھی ریال کی  قیمت بڑھ گئی ہو ، اور اگر  زید   کو  روپے وصول  ہوئے تھے  تو  پھر زید مقروض پر  سات لکھ روپے واپس کرنا ضروری ہے،  اس صورت  میں قرض خواہ  عمرو کا ریال میں واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ مقروض کا جس جنس پر قبضہ پایا جائے اسی کا واپس کرنے کا وہ پابند ہوتا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(القرض)هوعقد مخصوص يرد على دفع مثلي ليرد مثله...(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا..."(وكان عليه ‌مثل ‌ما ‌قبض) فان قضاه اجود بلا شرط جاز و يجبر الدائن على قبول الاجود و قيل لا هذا هو الصحيح."

(‌‌‌‌باب المرابحة والتولية، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:161، 165،166ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"فإن ‌الديون ‌تقضى ‌بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصا."

(كتاب الشركة ،فروع في الشركة، ج:4، ص:320، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو ‌استقرض ‌فلوسا نافقة، وقبضها...ولو لم تكسد، ولكنها رخصت أو غلت فعليه رد مثل ما قبض بلا خلاف."

( کتاب البیوع ، فصل فی حکم البیع ، ج:5، ص:242،  ط: سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"أن الواجب على المستقرض رد ‌مثل ‌ما ‌قبض وعلى الغاصب كذلك، وقد حصل قبض الفلوس وهي رائجة، فيجب رد مثلها من ذلك الضرب رائجة."

(كتاب البيع، ‌‌الفصل الثالث والعشرون: في القروض، ج:7، ص:129، ط:دارالکتب العلمیه)

تبیین الحقائق میں ہے:

" وأجمعوا أن الفلوس إذا لم تكسد، ولكن غلت قيمتها أو رخصت فعليه ‌مثل ‌ما ‌قبض من العدد."

(كتاب البيوع، فصل في تصرف الثمن، ج:4، ص:143، ط:المطبعة الكبري قاهره)

فتاوی  شامی میں ہے:

"وأصله اختلافهما فيمن غصب مثليا فانقطع فعند أبي يوسف تجب قيمته ‌يوم ‌الغصب، وعند محمد: يوم القضاء وقولهما: أنظر للمقرض من قول الإمام، لأن في رد المثل إضرار به ثم قول أبي يوسف: أنظر له أيضا، لأن قيمته يوم القرض أكثر من يوم الانقطاع وهو أيسر أيضا فإن ضبط وقت الانقطاع عسر."

(كتاب البيوع ،فصل في القرض، ج:5، ص:163، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"أو) يجب رد (مثله إن هلك وهو مثلي وإن انقطع المثل) بأن لا يوجد في السوق الذي يباع فيه وإن كان يوجد في البيوت ابن كمال (فقيمته يوم الخصومة) أي وقت القضاء وعند أبي يوسف ‌يوم ‌الغصب وعند محمد يوم الانقطاع۔۔۔ وعند أبي يوسف ‌يوم ‌الغصب، وهو أعدل الأقوال كما قال المصنف وهو المختار على ما قال صاحب النهاية."

(كتاب الغصب ،مطلب فيما لو هدم حائط ، ج:6، ص:183،  ط :سعيد)

فقہ البیوع علی المذھب الاربعۃ میں ہے:

"أما إذا كان المرسل له رصيد في عملة باكستانية مثلاً، ويريد أن يتسلم المرسل اليه عملة أخرى مثل الريال السعودي، فإن هذه العملية بيع للربياتالباكستانية بالريالات السعودية، ثم تحويل الريالات إلي المرسل اليه، فيجري فيه كل ما ذكرناه في موضوع مبادلة  العملات."

(الباب السابع:تقسيم البيع من حيث نوعية البدلين، المبحث الثالث في الصرف، الطريق الثالث التحويل المصرفي، ج:2، ص:720، ط:مكتبة  معارف القرأن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں