بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض پر قربانی/ٹیکس کی ادائیگی سے زکاۃ کا حکم


سوال

 میں آج کل بیٹی کے پاس آسٹریلیا میں ہوں،  اور جیسے  جیسے بقرہ عید قریب آرہی ہے،  یہاں یہ بات زور دے کر سمجھائی جا رہی ہے کہ  چوں کہ سب  نے  (تقریبًا)  مکان وغیرہ لون پر  (مورٹگیج)  پر لیے ہوئے ہیں،  اس وجہ سے قربانی تو فرض ہی نہیں ۔ اور یہ کہ زکوٰۃکا مسئلہ بھی اس طرح ہے کہ ہم ٹیکس تو دیتے ہی ہیں اور اس کے علاوہ ہم زکوٰۃ ان کو کیوں دیں۔ میں  چوں کہ اس بارے میں علم نہیں رکھتا، اس لیے  ان کو دلیل سےسمجھا نہیں پاتا۔ اس لیے اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں اور بہت سے مسلمانوں کو گمراہی سے بچائیں!

جواب

واضح رہے کہ  جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ( اگر مقروض ہے تو قرض کی رقم منہا کرنے کے  بعد )ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

لہذا اگر کسی شخص کے اوپر قرض ہو ، اور اس کے پاس ضرورت سے زائد سازوسامان اور کچھ مال بھی ہو  تو  اگر کل سازوسامان و مال اتنا ہو کہ رواں سال واجب الادا قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد، نصاب کے بقدر یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال بچا رہتا ہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی  او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

اسی طرح زکاۃ بھی ہر عاقل و بالغ ،آزاد مسلمان پرفرض ہے جو نصاب کے برابر مال رکھتا ہو( نصاب سے مراد یہ ہے کہ  ساڑھے سات تولہ سونا ہو  یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہویا دونوں کی مالیت کے برابریا دونوں میں سے ایک کی مالیت کے برابرنقدی ہو یا سامانِ تجارت ہو یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو)،اور وہ  ما ل بنیادی ضرورت  اور قرض سے زائد ہو ،اس مال پر پورا سال گزر جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔

 زکاۃ کے واجب ہونے کے لیے مال کا تجارتی ہونا ضروری ہے،ضرورت سے زائد غیر تجارتی سازوسامان زکات کے نصاب میں شامل نہیں،نیز اس مال پر سال گزرنا بھی شرط ہے،لہذا صاحب نصاب ہونے کے بعد سال کی ابتداء کی طرح سال کے اخیر میں بھی نصاب کے بقدر مال کا ہونا ضروری ہے،البتہ سال کے درمیان میں اگر مال نصاب سے کم ہوگیا تو اس سے زکاۃ کے واجب ہونے کا حکم ساقط نہیں ہوگا۔

باقی زکاۃشریعت کا ایک حکم ہےاور یہ  عبادت ہے، اس کا ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں، ٹیکس کوئی بھی حکومت اپنے اخراجات سامنے رکھ کر مخصوص قوانین کے مطابق عوام سے وصول کرتی ہے، لہذا اگر زکاۃ واجب ہو تو ٹیکس دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ اس کی ادائیگی علیحدہ سے کرنا ضروری ہے، اور زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو مالک بناکر دینا ضروری ہے، اس لیے ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم (اگرچہ وہ جائز مصارف مثلاً تعمیرات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ ہورہی ہو، تب بھی اس رقم) کی ادائیگی کے وقت زکاۃ کی نیت سے دینے سے بھی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

' ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب.....' 

(کتاب الاضحیۃ،ج5،ص292،ط؛دار الفکر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"سابعاً ـ هل تجزئ الضريبة المدفوعة للدولة عن الزكاة؟

لاتجزئ أصلاً الضريبة عن الزكاة؛ لأن الزكاة عبادة مفروضة على المسلم شكراً لله تعالى وتقرباً إليه، والضريبة التزام مالي محض خال عن كل معنى للعبادة والقربة، ولذا شرطت النية في الزكاة ولم تشرط في الضريبة، ولأن الزكاة حق مقدر شرعاً، بخلاف الضريبة فإنها تخضع لتقدير السلطة، ولأن الزكاة حق ثابت دائم، والضريبة مؤقتة بحسب الحاجة، ولأن مصارف الزكاة هي الأصناف الثمانية: الفقراء والمساكين المسلمون إلخ، والضريبة تصرف لتغطية النفقات العامة للدولة. وللزكاة أهداف روحية وخلقية واجتماعية إنسانية، أما الضريبة فلايقصد بها تحقيق شيء من تلك الأهداف".

(الفصل الاول:الزکاۃ،المطلب الثانی احکام متفرقۃ فی توزیع الزکاۃ،ج3،ص1979، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں