میں آپ کی توجہ ایک ایسے بزرگ شخص کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو جسمانی اور مالی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہیں، وہ مختلف بیماریوں جیسے ہائی بلڈ پریشر اور معدے کے مسائل سے نبرد آزما ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان کی زندگی اب زیادہ طویل نہیں رہی، زندگی کے اخراجات میں اضافے اور کم آمدنی کی وجہ سے اس شخص کو ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا پڑا، ابتدائی طور پر وہ ہر ماہ بینک کو کریڈٹ کارڈ پر ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کردیتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی حالت بگڑ گئی اور قرض بڑھنا شروع ہو گیا، اب ان پر تقریبا 32,000 AUD(آسٹریلین ڈالر) کا بھاری قرضہ ہے جو کہ ان کے اسٹیٹس سے بہت زیادہ ہے اور وہ ہر ماہ 500-600 AUD(آسٹریلین ڈالر) کاسود ادا کرنے پر مجبور ہیں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں سود (ربا) حرام ہے ، اس صورتحال نے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
یہ بزرگ شخص اپنی زندگی میں اس قرض سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس دنیا سے قرض کے بوجھ کے بغیر جاسکیں اور آخرت کے عذاب اور اس کے خطرناک نتائج سے بچ سکیں، اس شخص کی سنگین صورتحال کے پیش نظر کیا اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے اور کیا اس کے قرض کو ختم کرنے کے لیے زکوٰۃ دینا مستحسن ہے ؟مزید یہ کہ ایسے شخص کی مدد کرنے اور اسے زکوۃ دینے میں اسلام میں کوئی اجر ہے؟
واضح رہےکہ کسی مسلمان بھائی کی مدد کرنے کے بارے احادیث مبارکہ میں فضائل وارد ہوئے ہیں، خاص کر جب کہ وہ کمزور، پریشان حال اور مقروض ہو جیسا کہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ خود بھی اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اسے رسواء کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت میں کوشاں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرے گا اور جس نے کسی مسلمان سے تکلیف کا ازالہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکالیف میں سے ایک بڑی تکلیف کا ازالہ فرمائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ :
” ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ کو کون سے لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں؟اور اللہ کو کون سے اعمال سب سے زیادہ محبوب ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اللہ تعالیٰ کےنزدیک سب سےزیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو تو کسی مسلمان کو دیتا ہےیا تو اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے یا تو اس کی طرف سے قرض ادا کرتا ہےیا تو اس سے بھوک کو دور کرتا ہے“۔
نیز جو شخص ساڑھےباون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ضرورتِ اصلیہ سے زائد سامان کامالک نہیں ہےاور ہاشمی (حضرت علی،حضرت جعفر،حضرت عقیل،حضرت حارث اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہم أجمعین کی اولاد میں سے)نہیں ہے، تو اس کو زکوۃ دی جاسکتی ہے اور اگر وہ شخص مقروض ہےتو قرض کی ادائیگی کے لیے زکاۃ وصول کرسکتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا مذکورہ مقروض غیر سید بزرگ کو زکوۃ دینا درست ، بل کہ ایک مقروض کی مدد کرنے کی وجہ سے باعثِ اجرو ثواب ہے۔
تا ہم مذکورہ بزرگ کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا اور اس پر سود ادا کرنا شرعا جائز نہیں تھا،لہٰذ اس پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر سود معاف کروا سکتا ہے تو بہتر، ورنہ مجبوری میں مستحق ہونے کی صورت میں لوگوں کو زکوۃ سے بھی تعاون کرنا جائز ہو گا اور مذکورہ آدمی پر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار بھی کرے۔
قرآن کریم میں ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ وَالْعامِلِينَ عَلَيْها وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقابِ وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [سورة التوبة:60]
ترجمہ:”صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات پر متعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا (منظور) ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے قرضہ میں اور جہاد میں اور مسافروں میں یہ حکم الله کی طرف سے مقرر ہے ۔ اور الله تعالیٰ بڑے علم والے بڑے حکمت والے ہیں“ ۔
صحیح بخاری میں ہے:
2310 -" حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب: أن سالما أخبره: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة".
(كتاب المظالم، باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه.، ج:2، ص:862، ط: دار ابن كثير)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ خود بھی اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اسے رسواء کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت میں کوشاں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرے گا اور جس نے کسی مسلمان سے تکلیف کا ازالہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکالیف میں سے ایک بڑی تکلیف کا ازالہ فرمائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔
المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
13646 - "حدثنا محمد بن عبد الرحيم الشافعي الحمصي، ثنا القاسم بن هاشم السمسار، ثنا عبد الرحمن بن قيس الضبي، ثنا سكين بن أبي سراج، ثنا عمرو بن دينار، عن ابن عمر أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: يا رسول الله ، أي الناس أحب إلى الله؟ وأي الأعمال أحب إلى الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أحب الناس إلى الله تعالى أنفعهم للناس، وأحب الأعمال إلى الله تعالى سرور تدخله على مسلم، أو تكشف عنه كربة، أو تقضي عنه دينا، أو تطرد عنه جوعا".
(باب العين، عمرو بن دينار، عن ابن عمر، ج:12، ص:453، ط: مكتبة ابن تيمية)
ترجمہ :”حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ کو کون سے لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں؟اور اللہ کو کون سے اعمال سب سے زیادہ محبوب ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اللہ تعالیٰ کےنزدیک سب سےزیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو تو کسی مسلمان کو دیتا ہےیا تو اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے یا تو اس کی طرف سے قرض ادا کرتا ہےیا تو اس سے بھوک کو دور کرتا ہے“۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها الغارم) ، وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير كذا في المضمرات".
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:353، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة"
"والحاصل أن النصاب قسمان: موجب للزكاة وهو النامي الخالي عن الدين. وغير موجب لها وهو غيره، فإن كان مستغرقا بالحاجة لمالكه أباح أخذهما وإلا حرمه وأوجب غيرهما من صدقة الفطر والأضحية ونفقة القريب المحرم كما في البحر وغيره".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:339، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:343، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102856
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن