بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کو زکاۃ دینا


سوال

میں ایک غریب آدمی ہوں روزانہ چند سو کماتا ہوں جوکہ کھر کے اخراجات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے، اسی لیے میری بیوی اسکول میں پڑھا کر گھر کے اخراجات پورے کرنے میں میری مددگار ہے، ساتھ  ہی بچوں کے تعلیمی اخراجات اور لباس وغیرہ ان ہی کے توسط سے پورے ہورہے ہیں۔ میرے والدِمحترم صاحبِ حیثیت اور پیشہ کے حساب سے ٹھیکیدار ہیں، میں گھر میں مالی لحاظ سے بہت کم زور ہوں، والد صاحب کا رویہ مجھ سے اور میرے بیوی بچوں سے باقیوں کی طرح نہیں ہے، گھر میں کوئی مشورہ یا کسی بھی معاملے میں ہمیں شریک نہیں کیا جاتا، باقی بھائی مالی حوالے سے مستحم ہیں، ان کے اور ان کے گھر والوں سے ان کا رویہ بہتر ہے، میرا کام کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں، ابھی گزشتہ دنوں میرے چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی ہے جس کے تمام اخراجات میرے والد اور میرے دو بڑے بھائیوں نے اُٹھائے، میرا چھوٹا بھائی بھی بے روزگار ہے، میرے والد صاحب نے اس کا تمام خرچہ پورشن بنوانے سے لے کر ابھی تک اٹھا یا ہوا ہے، میرے  شادی کے اخراجات میں تعاون نہ کرنے کی وجہ سے والد صاحب کا رویہ میرے لیے مزید سخت ہوگیا ہے، جب کہ وہ میرے حالات سے بھی واقف ہیں، اس کے باوجود بھی وہ مجھ سے اخراجات میں تعاون کے سلسلے میں تقاضہ برابر  کیے جارہے ہیں،  میں اس صورتِ حال میں بہت پریشان ہوں، میرے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ کہیں سے قرض پکڑ کر ان کا تقاضہ پورا کرپاؤں، جب کہ میرے اوپر  2 ماہ کا دوکان کا کرایہ اور راشن، سبزی اور دیگر  کی مد میں بیس ہزار روپے کا قرضہ ہے، میری بیوی قرضہ اتارنے میں میری مدد کررہی ہے،  پھر بھی ہمارا گزارا مشکل سے ہورہا ہے، میں تو اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوں، اس صورتِ حا ل میں کیا میں زکاۃ کی رقم لے کر اپنے والد صاحب کو دے سکتا ہوں؛ کیوں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے؟  میرے والد محترم نے میری بیوی کے پاس کمیٹی ڈالی ہوئی ہے،  رقم نہ دینے کی صورت میں وہ کمیٹی روک کر ہمیں پریشانی میں مبتلا کرسکتے ہیں جب کہ ہمارے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ ہم اس نقصان کو سہہ پائیں، آپ اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

بصورتِ صدقِ واقعہ مذکورہ صورتِ حال میں تو  آپ پر پہلی ذمہ داری آپ کی اہلیہ اور بچوں کے اخراجات کی ہے، جس کا پورا کرنا آپ پر شرعاً لازم ہے، اس صورت میں والد کا آپ کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا یا پیسوں کا تقاضہ کرنا درست نہیں، اگر آپ مالی اعتبار سے گھر کے مشترکہ امور میں معاونت نہیں کرسکتے تو  آپ جسمانی اعتبار سے  خدمت میں شریک رہا کریں؛ تاکہ آپ کا بھی تعاون کسی درجہ میں ہو جائےاور باقی لوگوں کو  کچھ  کہنے کا موقع نہ ملے۔

باقی اگر  مذکورہ صورت میں قرض منہا کرنے کے بعد آپ کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو  اور آپ ہاشمی (سید/عباسی) بھی نہ ہوں تو آپ زکاۃ وصول کرسکتے ہیں۔ پھر یہ آپ کی صواب دید  پر ہے کہ آپ  وصول کرکے والد صاحب کو دیں یا کسی اور جائز مصرف میں خرچ کریں۔ واضح رہے کہ بیوی شوہر کی ملکیت علیحدہ علیحدہ  شمار ہوتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں