اگر کوئی مقروض ہو اور خلاصی کا کوئی طریقہ نہ ہو اور روزگار کبھی ہو ، کبھی نہ ہو اور ماہانہ تنخواہ سے بمشکل گھر کے اخراجات چلتے ہوں، اور گھر والد کا ہو ۔کیا قرض ختم کرنے کے لیے زکاۃ لے سکتا ہے؟ یا کوئی صدقہ دے سکتا ہے؟ قرض خواہ کافی پریشان کرتے ہیں اور بے عزتی کرنے پر آئے ہیں تو کیا حکم ہے زکاۃ لینے کا؟
جوشخص مقروض اور زکاۃ کا مستحق ہو ، (یعنی قرض کی مقدار منہا کرنے کے بعد اس کے پاس ضرورت سے زائد اتنا مال اور سامان باقی نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو) اسے اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے زکاۃ دینا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن ہے،مستحقِ زکاۃ مقروض شخص زکاۃ کی رقم لے کر اپناقرض اداکرسکتاہے۔
ضرورت سے مراد رہائش کا گھر، استعمال کے کپڑے، واشنگ مشین، فریج، موبائل، یوٹیلیٹی بل وغیرہ ہیں۔
الفتاوى الهندية (1/ 188):
"(ومنها: الغارم) وهو من لزمه دين، ولايملك نصابًا فاضلًا عن دينه أو كان له مال على الناس لايمكنه أخذه، كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير، كذا في المضمرات". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144107201253
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن